احناف اور آخری تشہد کی دعائیں

بعض لوگوں کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ کسی طرح سے فقہ حنفی کے عمل کو خلاف حدیث ثابت کیا جائے، اور اس کے لیے لوگوں سے سنی سنائی باتوں کی وجہ سے یا فقہ حنفی کی کسی ایک آدھ کتاب کو دیکھ کر مغالطہ کا شکار ہو کر لوگوں کو بھی مغالطہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ علم وتحقيق کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے. 

فقہ حنفی سے متعلق کسی بھی مسئلہ کے بارے میں جاننا ہو یا اس کی دلیل کتاب وسنت اور اجماع یا قیاس شرعی سے معلوم کرنی ہو تو علماء وفقہاء احناف سے رجوع کرنا چاہیے یا ان کی معتبر کتبِ فتوی، متون، شروحات کی مکمل مراجعت کے بعد پوری دیانتداری سے پوری بات لوگوں کو بتانی چاہیے.

رب اجعلنی مقیم الصلاۃ إلخ سے متعلق بھی کچھ دن پہلے کسی سلفی عالم کا ایک کلپ سوشل میڈیا پہ وائرل ہوا تو اس وقت اس کا جواب لکھا تھا کہ دعا کے باب میں وسعت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود التحیات کے بعد دعا کی اس وسعت کو بیان فرمایا ہے، صحيح بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے التحیات سکھایا اور فرمایا : ثم ليختر أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به.
وفي رواية: ثمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أعْجَبَهُ إلَيْهِ، فَيَدْعُو. یعنی تم میں کوئی اپنی پسند کی دعا اختیار کرے اور اسے پڑھے.
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امام بیہقی کے طریق میں یہ اضافہ بھی وارد ہوا ہے کہ ثم يدعو لنفسه بما بدا له. 
قال الحافظ ابن حجر : وهذه الزيادة صحيحة لأنها من الطريق التي أخرجها مسلم .
یعنی تشہد پڑھنے کے بعد کے بعد جو دعا اسے مناسب لگے وہ پڑھے یا ان الفاظ میں دعا مانگے.

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ والہ وسلم نے خود دعا کے باب کو وسیع فرمایا اور نمازی کو اختیار دیا کہ وہ اپنی پسند کی دعا پڑھ سکتا ہے.

اس طرح کی روایات سے قرآنی دعائیں پڑھنے کا استحباب بھی ثابت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں اس کو مستحب کہا گیا ہے. 
ویسے بھی قرآن تو وحی متلو ہے اور  خبر واحد کے مقابلہ میں قطعی ہے، جب کہ خبر واحد سے ثابت الفاظ بھی وحی ہیں لیکن غیر متلو ہیں، جیسے قبولیت دعا میں زبان نبوت سے نکلے ہوئے الفاظ کی تاثیر مسلم ہے ایسے ہی قرآن پاک میں وارد دعاؤں کی تاثیر بھی مسلم ہے.

اسی طرح ایک اور سلفی عالم کی ایک پوست سوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ احناف کے ہاں آخری قعدہ میں دعا کے طور پر صرف رب اجعلنی الخ آیت پڑھی جاتی ہے... اس کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ احناف تو حدیث میں وارد دعائیں نہیں پڑھتے... اور آخر میں یہ دعوی پھر دہرایا کہ احناف نے  تشہد اخیرہ کے لیے صرف یہی قرآنی دعا رب اجعلنی إلخ متعین کردیا ہے اور ان کے متبعین اس پر تکیہ کیے ہوئے ہیں وہ نماز نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کے خلاف ہے. 

اب آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ احناف آخری قعدہ میں کن کن دعاؤں کے پڑھنے کا کہتے ہیں، بلکہ ان کے پڑھنے کو افضل واحسن قرار دیتے ہیں.

فقہ حنفی کی مشہور کتاب  شرح الوقایہ میں فرمایا کہ اولی یہ ہے کہ تشہد اخیرہ سے فارغ ہو کر ادعیہ ماثورہ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول) دعائیں پڑھا کرے.

شرح الوقایہ، البحر الرائق اور الجوهرة النيرة وغیرہ فقہ حنفی کی کتابوں میں آخری تشہد کے بعد درج ذیل دعاؤں کے پرھنے کو اولی واحسن قرار دیا گیا ہے :
1- عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا وَالمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ. 
وفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ: إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الْآخِرِ، فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ.  (متفق عليه) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم دعا کرتے تھے اور کہتے تھے : "اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے"۔
 جب کہ صحیح مسلم میں ایک روایت ہے : "جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو، تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے : جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کی برائی سے۔" 

2-حضرت أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا:
 علِّمْني الدعاءَ أدْعو به في صلاتي. قال: قل:اللهمَّ إني ظلمتُ نفسي ظلمًا كثيرًا، ولا يغفرُ الذنوبَ إلا أنت، فاغفرْ لي مغفرةً من عندِك، وارحمْني، إنك أنت الغفورُ الرحيمُ. (صحيح البخاري ومسلم) 
 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ مجھے کوئی دعا سکھا دیں جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:تم کہو: " اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي إلخ یعنی اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم ڈھائے ہیں، اور گناہوں کو توں ہی بخشنے والا ہے، توں میرے گناہوں کو اپنی طرف سے معاف کردے، اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بخشنے والا، اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
3-مسلم شریف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سب سے آخر میں سلام اور تشہد کے درمیان یہ دعا پڑھتے :
 اللهمَّ  اغفرْ لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ وما أسررتُ وما أعلنتُ وما أسرفتُ وما أنت أعلمُ به مِنِّي أنت المُقدِّمُ وأنت المُؤخِّرُ . لا إله إلا أنتَ. (صحيح مسلم) 
 ترجمہ: اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دے اور میرے پوشیدہ و ظاہر گناہوں کو بھی بخش دے اور جو میں نے زیادتی کی اسے بھی اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اس کو بھی بخش دے، تو ہی پہلے کرنے والا، تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
4- عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه: أنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَقَالَ: «يَا مُعَاذُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ»، فَقَالَ: «أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.  
 [رواه أبو داود والنسائي وأحمد] 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : "اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تم سے محبت رکھتا ہوں" ... آگے فرمایا : "اے معاذ! میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا اور ہرگز نہ چھوڑنا : اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ۔ یعنی اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہتر انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔ 
بعض فقہاء احناف نے ان کے علاوہ بھی ادعیہ ماثورہ نقل کی ہیں. 

اس تفصیل کے بعد ہم امید کرتے ہیں کہ جو شخص لوگوں کی سنی سنائی باتوں سے یا کسی ایک آدھ کتاب کو پڑھ کر مغالطہ کا شکار ہوا تھا وہ اپنی بات سے رجوع کرے گا اور آئندہ جب بھی احناف سے متعلق کوئی مسئلہ سامنے آئے تو علماء احناف سے معلوم کرے گا یا ان کی معتبر کتب کی مراجعت کرے گا.
اللہ تعالیٰ سب کو صراط مستقیم کی پیروی نصیب فرمائے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے آمین 
هذا وصلى الله على سيدنا ومولانا محمد وعلى آله وصحبه وبارك وسلّم.

 

أبو الخير عارف محمود الجلجتي الكشميري
دار الإفتاء بالمدرسة الفاروقية جلجت
غرة شعبان المعظم ١٤٤٦ھ

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025