نبی اکرم ﷺ سے منقول علاج معالجے کی شرعی حیثیت
ڈاکٹر فہد انوار
مدرس کلیۃ العلوم الاسلامیہ اسلام آباد
شعبہ فزیالوجی راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی
نبیء اکرمﷺ سے منقول علاج معالجے کی شرعی حیثیت
بنیادی سوال:
۱۔آنحضرتﷺ سے منقول طبی ارشادات وحی ہیں یا آپﷺ کی رائے اور مشورہ
۲۔کیا یہ ارشادات ہر شخص اور ہر زمانے کے لیے قابلِ عمل ہیں یا خصوصی اشخاص و احوال کے لیے۔
۳۔ان ارشادات سے استفادہ کے لیے ضابطہ اور لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
تحقیق کے اہداف:
۱۔احادیثِ طب کو وحی ماننے والے اور محض رائے یامشورہ ماننے والے علماء کی آرا کا جائزہ اور تطبیق یا ترجیح
۲۔منتخب احادیثِ طب کا مطالعہ اوران میں آنحضرتﷺ کا طرزِتکلم ۔
۳۔احادیثِ طب سے استفادہ کا ضابطہ مقرر کرنا۔
منہجِ تحقیق:
یہ تحقیق تجزیاتی نوعیت کی ہوگی جس میں طب کی احادیث کو وحی قرار دینے والوں اور بطور مشورہ قرار دینے والوں کے دلائل و آرا کا تجزیہ کرکے نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔نیز منتخب احادیثِ طب کا مطالعہ کرکے یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ آنحضرتﷺ ارشاد کو صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رہے ہیں،جزم کے ساتھ ارشاد فرمارہے ہیں یا بطور ایک رائے اور مشورہ کے طور پر ارشاد فرما رہے ہیں۔
تعارف
انسان جسم اور روح سے مرکب ہے۔جسم کے ساتھ روح کا تعلق برقرار رہنے کو زندگی کہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے روح جسم سے جدا کردی جاتی ہے تو انسان مردہ ہو جاتا ہے۔روح کو پاک کرنے اور گناہوں کی آلودگیوں سے بچانے کے لیے خالقِ کائنات نے انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کا سلسلہ جاری فرمایا جس کے سردار اور خاتم ہمارے آقا سیدنا محمدﷺ ہیں۔نبی ءاکرم ﷺ کی تشریف آوری کے مقاصد قرآنِ مجید نے تین ارشاد فرمائے ہیں:
۱۔تلاوتِ آیات
۲۔تزکیہءنفوس
۳۔تعلیمِ کتاب وحکمت
آپ ﷺ کی تشریف آوری انسانوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار مثلاً توحید،محبت و خشیتِ الٰہی،تواضع،رشتوں کی پہچان ،انسانوں کے لیے امن وسلامتی،ہمدردی،ایثار،سخاوت وغیرہ سے آراستہ کرنے کے لیے تھی۔
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاق[1]
مجھے اچھےاخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے
چونکہ آپﷺ کی ان تعلیمات پر عمل کرنے میں بدنِ انسانی بھی استعمال ہوتا ہے،نیز دنیا میں رہتے ہوئے انسان پر بدنی آزمائشیں بھی آتی ہیں لہٰذا آپ ﷺ کی تعلیمات میں صحت و بیماری سے متعلق ہدایات بھی آئی ہیں۔چونکہ تندرست بدن کے ساتھ آدمی عبادات،معاملات وغیرہ کو بھی حسن و خوبی کے ساتھ سر انجام دے سکتا ہے لہٰذا صحت کی حفاظت کا اہتمام بھی ایک شرعی تعلیم ہے۔محدّثین ِ کرام بھی اپنی کتب میں ابواب الطب یا کتاب الطب کے نام سے ایک مستقل جزو میں آپ ﷺ کے طب کے متعلق ارشادات ذکر کرتے ہیں۔یہ نفیس ارشادات مندرجہ ذیل قسم کے ہوتے ہیں:
۱۔علاج کی ترغیب
۲۔حلال ذریعہء علاج
۳۔بعض مخصوص غذاؤں کی طبّی افادیت کا بیان
۴۔بعض طبّی اور حیاتیاتی انکشافات
۵۔بعض صحابہ کے لیے دوا یا آیاتِ قرآنیہ وغیرہ کا تجویز کرنا
محدّثین بالخصوص صحاحِ ستّہ کے مؤلفین کا ان احادیث کو اہتمام سے جمع کرنا ان احادیث کی کثرت کی علامت ہونے کے ساتھ آنحضرت ﷺکے ان ارشادات سے خصوصی شغف کی بھی علامت ہے۔یہ تمام احادیث سند کے اعتبار سے ایک درجہ کی نہیں ہے۔ان میں کبھی آنحضرتﷺ نے ارشادِ عالی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب فرمایا ہے اور کبھی ککسی مخصوص حالت کے مطابق ارشاد فرمایا ہے ۔آگے اس بارے میں تفصیل آئے گی۔بعض کتب میں ان احادیثِ طب اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو الگ سے بھی جمع کیا گیا ہے ۔ذیل میں ان کتب اور ان کےمصنفین کے اسماء لکھے جاتے ہیں:
۱۔الطب النبوی از شیخ عبداللہ بن حبیب اندلسی(ڈاکٹر محمد علی البار کی تحقیق کے ساتھ)
۲۔الطب النبوی از شمس الدین حافظ ذہبی
۳۔الطب النبوی از علامہ ابن القیم الجوزیہ ( یہ مصنف کی کتاب زاد المعاد فہ ھدی خیر العباد کا جز چہارم ہے۔جو اب مستقل کتاب کی صورت میں بھی دستیاب ہپے۔طبِ نبوی پر لکھی جانے والی کتب میں مقبول ترین کتاب ہے۔)
۴۔الطب النبوی از شیخ ابو نعیم اصبھانی (مصطفیٰ خضر ترکی کے ساتھ)
۵۔الطب النبوی از علامہ ضیاء الدین المقدسی(مجدی السید کی تحقیق کے ساتھ)
۶۔ الطب النبوی از حافظ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی
۷۔ الطب النبوی از علامہ جلال الدین سیوطی
۸۔طبِ نبوی اور جدید میڈیکل سائنس از ڈاکٹر خالد غزنوی (اس موضوع پر مصنف کی دیگر کتب بھی ہیں)
۹۔اسلام اور جدید میڈیکل سائنس از ڈاکٹر حکیم سید قدرت اللہ حسامی
10.Islamic Medicne the key to a better life by Yusuf al Hajj Ahmad
یہ چند کتب کے نام ہیں جن کو اس موضوع پر زیادہ شہرت حاصل ہوئی اور ان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔تاہم اس موضوع پر اردوو ،عربی انگریزی میں دیگر کتب اور مقالات بھی موجود ہیں جن کی اپنی اہمیت ہے اور جن میں رسول اللہ ﷺ کے بیان فرمودہ معالجات پر لکھا گیا ہے۔محدثین نے اپنی کتب میں ایک مستقل عنوان سے رسول اللہ ﷺ کے طب سے متعلق ارشادات جمع فرمائے ہیں۔پھر شرّاحِ حدیث نے عربی اردو میں ان کی تشریح فرمائی ہے۔بعض حضرات نے ایک ایک حدیث پر الگ جزء بھی لکھا ہے۔
طبِ نبوی کے حوالے سے اہلِ علم کی آرا:
نبیءاکرمﷺ کے طب سے متعلق ارشادات کو آپﷺ نے بطور وحی ارشاد فرمایایا پھر انسانی طبیعت کے مطابق مشورہ دیا یا ذاتی و معاشرتی تجربات کی روشنی میں ارشاد فرمایا،اس بارے میں تین طرح کی آرا ملتی ہیں؛
۱۔طب سے متعلق تمام ارشادات تجربہ یا مشورہ کی نوعیت کے حامل ہیں۔
۲۔طب سے متعلق تمام ارشادات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہیں۔
۳۔بعض ارشادات وحی ہیں اور بعض تجربہ یا مشورہ۔
ذیل میں بعض اہلِ علم کی آرا کو نقل کیا جاتا ہے۔
علامہ ابنِ خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ:
علامہ ابنِ خلدون معروف مؤرخ اور مسلمان مفکر گزرے ہیں۔فلسفہء تاریخ پر ان کا مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔طب ِنبوی کے حوالے سے علامہ ابن ِخلدون کی رائے یہ ہے کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔آپ ﷺ نے تجربات کی روشنی میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔تاہم اگر کوئی آدمی حسنِ اعتقاد کے ساتھ ان کا استعمال کرے تو فائدہ حاصل کرے گا۔وہ لکھتے ہیں:
وللبادية من أهل العمران طبّ يبنونه في غالب الأمر على تجربة قاصرة على بعض الأشخاص متوارثا عن مشايخ الحيّ وعجائزه، وربّما يصحّ منه البعض إلّا أنّه ليس على قانون طبيعيّ ولا على موافقة المزاج. وكان عند العرب من هذا الطّبّ كثير وكان فيهم أطبّاء معروفون كالحارث بن كلدة وغيره.
والطّبّ المنقول في الشّرعيّات من هذا القبيل وليس من الوحي في شيء وإنّما هو أمر كان عاديّا للعرب. ووقع في ذكر أحوال النّبيّ صلّى الله عليه وسلّم من نوع ذكر أحواله الّتي هي عادة وجبلّة لا من جهة أنّ ذلك مشروع على ذلك النّحو من العمل.
فإنّه صلّى الله عليه وسلّم إنّما بعث ليعلّمنا الشّرائع ولم يبعث لتعريف الطّبّ ولا غيره من العاديّات. وقد وقع له في شأن تلقيح النّخل ما وقع فقال: «أنتم أعلم بأمور دنياكم» . فلا ينبغي أن يحمل شيء من الطّبّ الّذي وقع في الأحاديث الصحيحة المنقولة على أنّه مشروع فليس هناك ما يدلّ عليه اللَّهمّ إلّا إذا استعمل على جهة التّبرّك وصدق العقد الإيمانيّ فيكون له أثر عظيم في النّفع. وليس ذلك في الطّبّ المزاجيّ وإنّما هو من آثار الكلمة الإيمانيّة كما وقع في مداواة المبطون بالعسل ونحوه والله الهادي إلى الصّواب لا ربّ سواه.[2]
اہلِ بادیہ کی بھی ایک طب ہے جوبعض اشخاص کے محدود تجربات پر مبنی اور قبیلے کے بوڑھے مردوں اورعورتوں سے نسل در نسل مروی ہوتی ہے۔ اس سے بسا اوقات بعض مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد کسی طبیعی قانون یا مزاج کی موافقت پر نہیں ہوتی۔ اہل عرب کے یہاں اس قسم کی طب کا بیش تر حصہ رائج تھا۔ ان میں بہت سے مشہور اطباء جیسے حارث بن کلدہ وغیرہ تھے۔ احادیث میں جوطب منقول ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔ اس کا وحی سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ وہ اہل عرب کی عادات میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں بعض ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو عادات کی قبیل سے ہیں۔ ان کا تذکرہ اس پہلوسے نہیں ہوا ہے کہ ان پر عمل مشروع ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کی بعثت اس لیے ہوئی تھی کہ شریعت کی تعلیم دیں۔ آپ طب سکھانے یا عادات کی قبیل کی دوسری چیز وں کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث کیےگئےتھے۔ ’تلقیح نخل ‘ کے سلسلے میں جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں آپؐ نے فرمایا تھا :’’ دنیا کے معاملات میں تم لوگ ز یادہ جاننے والے ہو۔ ‘‘ احادیث میں طب کا جوبیان ملتا ہے اسے مشروع قرار دینا صحیح نہیں، اس لیے کہ اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ اگر اسے برکت کے طورپر اورصدقِ ایمانی سے اختیار کیا جائے تواس سے عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ اُس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں اسہال کے مریض کا شہد سے علاج کرنے کا تذکرہ ہے۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ:
حافظ ابن القیم علوم ِشرعیہ کے ساتھ علومِ طبّیّہ کے بھی ماہر تھے اور اس میں درجہء اختصاص رکھتے تھے۔سیرت النبی ﷺ پر اپنی معروف کتاب زاد المعاد فی ھدی خیر العباد کی ایک جلد آپ نے اسی موضوع کے لیے مختص کی ہے۔اس حصے کو طبِ نبوی کے نام سے لوگوں نے الگ بھی شائع کیا ہے۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ احادیثِ طب کو وحی مانتے ہیں اور اس کے شواھد بھی لاتے ہیں۔آنحضرتﷺ کے ارشاد فرمودہ نسخوں کی افادیت اور طریقہء استعمال کو بھی مضمون میں لاتے ہیں۔احادیثِ طب کے حوالے سے ان کا نقطہءنظر ملاحظہ فرمائیں:
وَلَيْسَ طِبُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَطِبِّ الْأَطِبَّاءِ، فَإِنَّ طِبَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَيَقَّنٌ قَطْعِيٌّ إلَهِيٌّ، صَادِرٌ عَنِ الْوَحْيِ وَمِشْكَاةِ النُّبُوَّةِ وَكَمَالِ الْعَقْلِ. وَطِبُّ غَيْرِهِ أَكْثَرُهُ حَدْسٌ وَظُنُونٌ وَتَجَارِبُ، وَلَا يُنْكَرُ عَدَمُ انْتِفَاعِ كَثِيرٍ مِنَ الْمَرْضَى بِطِبِّ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُ إِنِّمَا يَنْتَفِعُ بِهِ مَنْ تَلَقَّاهُ بِالْقَبُولِ وَاعْتِقَادِ الشِّفَاءِ بِهِ[3]
آپﷺ کا طب اطبا کے طب کی طرح نہیں تھا ۔آپ ﷺ کا طب یقینی قطعی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا جو وحی ،نبوت کے نور اور عقل کے کمال سے نکلنے والا تھا۔آپﷺ کے علاوہ دیگر لوگوں کا طب تجربات اور گمان پر مشتمل ہوتا ہے۔بہت سے لوگوں کا طبِ نبوی سے فائدہ نہ اٹھا سکنا اس کیلیئے باعثِ انکار نہیں ۔اس لیے کہ اس سے وہ نفع اٹھائے گا جو اسے شفا کے اعتقاد کے ساتھ لے گا۔
تاہم ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ ایک اہم تنبیہ بھی فرماتے ہیں کہ ان ارشادات کو کئی جگہوں پر خصوصی نوعیت حاصل ہے۔کسی خاص شخص ،علاقے یا کیفیت کے لیے آپ ﷺ نے کوئی بات ارشاد فرمائی تو اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔چنانچہ ایک حدیثِ مبارک کے ذیل میں جس میں آنحضرت ﷺ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل کی تکلیف کے لیے مدینہ طیبہ کی کھجور تجویز فرماتے ہیں، اس کے ذیل میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنَ الْخِطَابِ الَّذِي أُرِيدَ بِهِ الْخَاصُّ، كَأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ جَاوَرَهُمْ، وَلَا رَيْبَ أَنَّ لِلْأَمْكِنَةِ اخْتِصَاصًا بِنَفْعِ كَثِيرٍ مِنَ الْأَدْوِيَةِ فِي ذَلِكَ الْمَكَانِ دُونَ غَيْرِهِ، فَيَكُونُ الدَّوَاءُ الَّذِي قَدْ يَنْبُتُ فِي هَذَا الْمَكَانِ نَافِعًا مِنَ الدَّاءِ، وَلَا يُوجَدُ فِيهِ ذَلِكَ النَّفْعُ إِذَا نَبَتَ فِي مَكَانٍ غَيْرِهِ لِتَأْثِيرِ نَفْسِ التُّرْبَةِ أَوِ الْهَوَاءِ، أَوْ هُمَا جَمِيعًا[4]
یہ حدیث ایک ایسا خطاب ہے جس میں خاص کا ارادہ کیا گیا ہے،جیسے مدینہ اور اس کے پڑوس والے۔کوئی شک نہیں کہ بہت سی دواؤں کی افادیت میں جگہوں کی خصوصیت ہوتی ہے کہ دوسری جگہ کی نسبت اس جگہ دوا زیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔پس ایک دوا جو اس جگہ اگتی ہے بیماری کے لیے نفع بخش ہوتی ہے،مٹی یا ہوا یا دونوں کی تاثیر سے۔جبکہ وہی فائدہ اس وقت حاصل نہیں ہوتا جب وہ دوا کسی دوسری جگہ اُگے۔
شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ:
حضرت شاہ صاحب قدّس اللہ تعالیٰ سرّہ نے اپنی نفیس کتاب حجۃاللہ البالغہ کے مبحث سوم میں علومِ نبوت کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں۔علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ تعالیٰ کے بقول علومِ نبوت اور سنت کی ایسی تقسیم وضاحت کے ساتھ سب سے پہلے شاہ صاحب نے فرمائی ہے۔شاہ صاحب نبی ﷺ کے علوم کو تشریعی اور غیر تشریعی میں تقسیم فرماتے ہیں۔تشریعی سے مراد وہ علوم ہیں جن کی تبلیغ آپ ﷺ پر لازم تھی اور امت کے لیے بھی ان میں آپ ﷺ کی اتباع ازبس ضروری ہے۔غیر تشریعی علوم وہ ہیں جن کی تبلیغ آپ ﷺ پر لازم نہیں تھی اور امت کے لیے بھی ان میں آپ ﷺ کی اتباع ایسی ضروری نہیں کہ نہ کرنے سے گناہ ہو۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:
اعْلَم أَن مَا رُوِيَ عَن النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدون فِي كتب الحَدِيث على قسمَيْنِ.
أَحدهمَا مَا سَبيله سَبِيل تَبْلِيغ الرسَالَة، وَفِيه قَوْله تَعَالَى:
{وَمَا آتَاكُم الرَّسُول فَخُذُوهُ وَمَا نهاكم عَنهُ فَانْتَهوا}
مِنْهُ عُلُوم المعادو عجائب الملكوت، وَهَذَا كُله مُسْتَند إِلَى الْوَحْي، وَمِنْه شرائع وَضبط للعبادات والارتفاقات بِوُجُوه الضَّبْط الْمَذْكُورَة فِيمَا سبق، وَهَذِه بَعْضهَا مُسْتَند إِلَى الْوَحْي، وَبَعضهَا مُسْتَند إِلَى الِاجْتِهَاد، واجتهاده صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَة الْوَحْي؛ لِأَن الله تَعَالَى عصمه من أَن يَتَقَرَّر رَأْيه على الْخَطَأ، وَلَيْسَ يجب أَن يكون اجْتِهَاده استنباطا من الْمَنْصُوص كَمَا يظنّ، بل أَكْثَره أَن يكون علمه الله تَعَالَى مَقَاصِد الشَّرْع وقانون التشريع والتيسير وَالْأَحْكَام، فَبين الْمَقَاصِد المتلقاة بِالْوَحْي بذلك القانون، وَمِنْه حكم مُرْسلَة ومصالح مُطلقَة لم يوقتها، وَلم يبين حُدُودهَا كبيان الْأَخْلَاق الصَّالِحَة وأضدادها، ومستندها غَالِبا الِاجْتِهَاد بِمَعْنى أَن الله تَعَالَى علمه قوانين الارتفاقات، فاستنبط مِنْهَا حكمه، وَجعل فِيهَا كُلية، وَمِنْه فَضَائِل الْأَعْمَال ومناقب الْعمَّال، وَرَأى أَن بَعْضهَا مُسْتَند إِلَى الْوَحْي وَبَعضهَا إِلَى الِاجْتِهَاد، وَقد سبق بَيَان تِلْكَ القوانين، وَهَذَا الْقسم هُوَ الَّذِي نقصد شَرحه وَبَيَان مَعَانِيه.
وَثَانِيهمَا مَا لَيْسَ من بَاب تَبْلِيغ الرسَالَة، وَفِيه قَوْله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا أَنا بشر إِذا أَمرتكُم بِشَيْء من دينكُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذا أَمرتكُم بِشَيْء من
رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنا بشر " وَقَوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قصَّة تأبير النّخل: " فانى إِنَّمَا ظَنَنْت ظنا، وَلَا تؤاخذوني بِالظَّنِّ، وَلَكِن إِذا حدثتكم عَن الله شَيْئا، فَخُذُوا بِهِ، فَإِنِّي لم أكذب على الله " فَمِنْهُ الطِّبّ، وَمِنْه بَاب قَوْله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَلَيْكُم بالأدهم الأقرح " ومستنده التجربة[5]
یعنی (خلاصہ یہ ہے کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعلوم مروی ہیں اورجوکتبِ حدیث میں درج ہیں، ان کی دو(۲) قسمیں ہیں : ایک وہ علوم جو تبلیغ رسالت سے متعلق ہیں ……… دوسرے وہ علوم جوتبلیغِ رسالت کے باب میں سے نہیں ہیں۔ ان کے سلسلے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا:’’ میں توایک انسان ہوں، جب تمہارے دین کے بارے میں کسی چیز کا حکم دو ں تواسے اختیار کرلواور جب اپنی طرف سے کسی چیز کا حکم دوں تو میری حیثیت ایک انسان کی سی ہے۔ اسی طرح ’تأبیر نخل‘ کے واقعہ میں ہے کہ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا :’’ میں نے ایک چیز کا گمان کیا، میرے گمان کواختیار نہ کرو، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز بیان کروں تواسے اختیار کرلو، اس لیے کہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔ ‘‘ انہی علوم میں سے ایک علمِ طب بھی ہے اور اسی میں ( گھوڑوں کے متعلق )آپ ﷺ کا ارشاد ہے عَلَيْكُم بالأدهم الأقرح(ادھم:سیاہ،اقرح:جس کی پیشانی میں سفیدی ہو )، اور اس کا مدار تجربہ ہے۔
شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کی توجیہ کرتے ہوئےبعض عرب محققین نے شاہ صاحب کو ان علما میں شمار کیا ہے جو نبی ﷺ کے طبی ارشادات کو وحی نہیں مانتے بلکہ رائے یا تجربہ کہتے ہیں۔تاہم درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاہ صاحب طب میں آپﷺ کے بتائے ہوئے معالجات وغیرہ کو امت پر واجب الاتباع نہیں سمجھتے۔عین ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی خاص فرد یا جماعت یا کسی خاص غذا کے بارے میں کوئی بات دل میں ڈالی گئی ہو جسے آپ ﷺنے مشفقانہ انداز میں بیان کیا ہولیکن تمام امت کے لیے اس پر عمل کرنا لازم نہ ہو ۔چنانچہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
چنانچہ علوم ِنبوت کی پہلی قسم بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب وہ آیت لے کر آتے ہیں جس میں امت کو حکماً ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ تمہیں جو دیں ،اسے مضبوطی سے تھام لو اور جس سے روکیں اس سے بازآجاؤ۔جبکہ علومِ نبوت کی دوسری قسم بیان کرتے ہوئت آپ یہ آیت نہیں لائے۔شاہ صاحب اگر طبی ارشادات کی اساس تجربہ کو قرار دیتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے کہ طبی تجربات کے ساتھ آنحضرت ﷺکو کسی خاص مسئلہ میں وحی کے ذریعے اس کی رہنمائی کی گئی ہو جبکہ آپ ﷺ امی)ناخواندہ(تھے۔یعنی آپ ﷺ نے باقاعدہ علمِ طب یا دیگر علوم و فنون کسی سے حاصل نہیں کیے تھے۔ استاذِ محترم مفتی محمد تقی عثمانی مدّظلہم فرماتے ہیں:
نعم ھناک مجال للقول بان المعالجات المروية عن رسول اللہﷺ لیست من قبیل تبلیغ الرسا لة،ولیست جزء للشریعة بمعنی ان یجب اتباعها لکل واحد فی کل مکان وزمان۔یقول الشیخ ولی الله الدھلوی فی حجة الله البالغة ۔ ۔ ۔[6]
یعنی اس بات کی گنجائش ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مروی معالجات تبلیغِ رسالت کی قبیل سے نہ ہوں اور اس معنی میں شریعت کا جزو بھی نہیں کہ ہر ایک کے لیے ہر جگہ اور ہر زمانے میں اس کی اتباع واجب ہو۔شیخ ولی اللہ دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں(آگے شاہ ولی اللہ کی وہ عبارت نقل کی ہے جو سابق میں گزر چکی ہے)۔
معاصر اہلِ علم کی آرا:
مفتی محمد تقی عثمانی:
مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی نے تکملہ فتح المھلم کی کتاب الطب کے شروع میں آنحضرت ﷺ کے طب سے متعلق ارشادات پر ایک جامع کلام کرتے ہوئے علامہ ابنِ خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ کے موقف کو انتہائی مخدوش قرار دیا ہے ۔آپ کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ اس قسم کے بعض ارشادات وحی کی قبیل سے ہوں اور بعض تجربے کی بنیاد پر ہوں:
والصحیح انه لا سبیل الی الجزم باحد الاحتمالین فی هذا،فیمکن ان تکون بعض المعالجات وحیا،ویمکن ان تکون بعضها مبنية علی التجربة،بانها لیست من الوحی فی شئ۔[7]
یعنی صحیح بات یہ ہے کہ اس میں دونوں احتمالات میں سے کسی ایک کے یقینی ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔اس لیے ممکن ہے کہ( آپﷺ کے تجویز کردہ) بعض معالجات وحی ہوں اور بعض تجربے پر مبنی ہوں کہ ان میں کوئی بات وحی نہ ہو۔
البتہ جو بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جزم کے ساتھ جو طبی ارشادات وتعلیم فرمائی اور وہ آپ ﷺ سے سندِصحیح سے ثابت ہیں،وہ کبھی حقیقت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔اس لیے کہ یا تو وہ بات وحی ہو گی جس میں غلطی کا امکان نہیں،یا پھر وحی نہ ہو تو بھی آپ ﷺ کو غلطی پر برقرار نہیں رکھا جاتا ۔[8]تابیرِنخلہ کے واقعے میں رسول ِ اکرمﷺ نے صحابہ کو نر اور مادہ کھجور کو ملانے سے روک دیا تھا۔بعد میں جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی کہ اس سے پیداوار کم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرا گمان تھا لہٰذا تم مجھ سے گمان مت لو۔[9] ۔
اس سے یہ استدلال کرنا کہ طبی امور کے متعلق آپ ﷺ کے ارشادات وحی نہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی دنیوی امور سے ہے۔اس کا جواب مفتی محمدتقی صاحب مدظلہم یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے وضاحت کے ساتھ فرمادیا کہ یہ میرا گمان تھا ،لہٰذا اس پر ان ارشادات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا جن میں آپ ﷺ جزم کے ساتھ ارشاد فرمائیں۔[10]
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی :
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظۃ اللہ تعالیٰ عصرِ حاضر کے نامور محقق ہیں۔اپنی کتاب السنہ مصدراً و معرفۃ للحضارۃ میں انہوں نے طب سے متعلق احادیث کی شرعی حیثیت پر طویل کلام کیا ہے۔ان رائے یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے طب سے متعلق اقوال امرِارشاد کی قبیل سے ہیں جس کا منشا شفقت ہے اور جس پر عمل نہ کرنے سے آدمی گناہ گار نہیں ہوتا۔تاہم وہ علامہ ابنِ خلدون رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائے کو بھی غلط قرار دیتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ قرضاوی بعض احادیثِ طب کو وحی مانتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
ورای ان العلامة ابن خلدون لم یغد الصواب حین یقول:ان الطب المنقول فی الشرعیات یعنىالمنقول فی السنۃ من ھذا القبیل( ای لیس من باب تبلیغ الرسالۃ کما عبر الد ہلوی) انما ہو من باب ما جری من العادۃ والجبلۃ[11]
یعنی میری رائے میں علامہ ابنِ خلدون اس بات میں درست نہیں کہ : شرعیات میں منقول طب یعنی سنت میں منقول اس قبیل سے نہیں( یعنی تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں جیسا کہ شاہ صاحب دہلوی نے تعبیر فرمائی)۔یہ تو عادت اور جبلت کی قسم سے ہے۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی:
معروف اہلِ قلم میں سے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی علامہ ابنِ خلدون اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو اپنی بات کی تائید میں لاتے ہیں کہ طب سے متعلق ان تعلیمات کی شرعی حیثیت نہیں بلکہ یہ آپﷺ نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے یا رائے دی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
طب اور علاج معالجہ کے سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواقوال یا معمولات مروی ہیں ان کی شرعی حیثیت کے سلسلے میں علماء کا خیال ہے کہ وہ وحیِ اِلٰہی کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان کا تعلق امورِ دنیا سے ہے۔ علاج معالجہ سے متعلق اُس وقت کے عرب معاشرے میں نسل در نسل تجربات سے گزرتے ہوئے جوباتیں معروف تھیں ان کا بیان بعض ارشاداتِ نبوی میں ملتا ہے۔ ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ اس کا ثبوت ایک واقعہ سے ملتا ہے جس کا تذکرہ ’تأبیر نخل‘ کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں لوگ کھجور کے درختوں میں ’تأبیر‘ (بارآوری ) کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس عمل کے تحت نر کھجور کے درختوں کا شگوفہ مادہ کھجور کے درختوں میں ڈالتے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہم ایسا ایک زمانے سے کرتے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا : آئندہ ایسا نہ کروتو بہتر ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ہدایتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے اس عمل کو نہیں دہرایا۔ اگلے سال کم پھل آئے۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپؐ نے اپنی بات سے رجوع کرلیا اور فرمایا: اِنَّما اَنَا بَشَرٌ، اِذَا اَمْرُتُکُمْ بِشَیٍٔ مِنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْابِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیٍٔ مِنْ رَاییِ فَاِنَّما اَنَا بَشَرٌ (مسلم:۲۳۶۲) ’’میں توبشر ہوں۔ جب میں تمہارے دین کے معاملے میں کسی چیزکا حکم دو ں تواسے اختیار کرلو اور اگر اپنی رائے سے کسی چیز کا حکم د و ں تو (تمہارے لیے اس کا اختیار کرنا ضروری نہیں ) میں تو بشر ہوں ‘‘۔
اسی بنا پر علما ء کرام نے طبِ نبوی کو’اُمورِ دنیا ‘ میں سے شمار کیا ہے۔ علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں :
’’اہلِ بادیہ کی بھی ایک طب ہے جوبعض اشخاص کے محدود تجربات پر مبنی اور قبیلے کے بوڑھے مردوں اورعورتوں سے نسل در نسل مروی ہوتی ہے۔ اس سے بسا اوقات بعض مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں، لیکن اس کی بنیاد کسی طبیعی قانون یا مزاج کی موافقت پر نہیں ہوتی۔ اہل عرب کے یہاں اس قسم کی طب کا بیش تر حصہ رائج تھا۔ ان میں بہت سے مشہور اطباء جیسے حارث بن کلدہ وغیرہ تھے۔ احادیث میں جوطب منقول ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔ اس کا وحی سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ وہ اہل عرب کی عادات میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں بعض ایسی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو عادات کی قبیل سے ہیں۔ ان کا تذکرہ اس پہلوسے نہیں ہوا ہے کہ ان پر عمل مشروع ہے۔ اس لیے کہ آپؐ کی بعثت اس لیے ہوئی تھی کہ شریعت کی تعلیم دیں۔ آپ طب سکھانے یا عادات کی قبیل کی دوسری چیز وں کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث کیےگئےتھے۔ ’تلقیح نخل ‘ کے سلسلے میں جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں آپؐ نے فرمایا تھا :’’ دنیا کے معاملات میں تم لوگ ز یادہ جاننے والے ہو۔ ‘‘ احادیث میں طب کا جوبیان ملتا ہے اسے مشروع قرار دینا صحیح نہیں، اس لیے کہ اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ اگر اسے برکت کے طورپر اورصدقِ ایمانی سے اختیار کیا جائے تواس سے عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ اُس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں اسہال کے مریض کا شہد سے علاج کرنے کا تذکرہ ہے۔ واللہ اعلم۔ ‘‘(مقدمہ ابن خلدون، تحقیق : عبداللہ محمد الدرویش، دار البلخی، دمشق، ۲۰۰۴، طبع اوّل، ۲/۲۶۸۔ ۲۶۹)
یہی بات شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھی ہے۔ فرماتے ہیں :’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعلوم مروی ہیں اورجوکتبِ حدیث میں درج ہیں، ان کی دو(۲) قسمیں ہیں : ایک وہ علوم جو تبلیغ رسالت سے متعلق ہیں ……… دوسرے وہ علوم جوتبلیغِ رسالت کے باب میں سے نہیں ہیں۔ ان کے سلسلے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا:’’ میں توایک انسان ہوں، جب تمہارے دین کے بارے میں کسی چیز کا حکم دو ں تواسے اختیار کرلواور جب اپنی طرف سے کسی چیز کا حکم دوں تو میری حیثیت ایک انسان کی سی ہے۔ اسی طرح ’تأبیر نخل‘ کے واقعہ میں ہے کہ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا :’’ میں نے ایک چیز کا گمان کیا، میرے گمان کواختیار نہ کرو، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز بیان کروں تواسے اختیار کرلو، اس لیے کہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھتا۔ ‘‘ انہی علوم میں سے ایک علمِ طب بھی ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، کتب خانہ رشیدیہ دہلی،۱/۱۲۸) اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ احادیث میں جن دواؤں یا علاج معالجہ کے جن طریقوں کا تذکرہ ملتا ہے، انہیں اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بسااوقات ان سے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں، لیکن انہیں دین کا جزء سمجھنا اوراصطلاحی طورپر انہیں ’مسنون‘عمل قرار دینا درست نہیں۔[12]
ڈاکٹر محمد الاشقر:
ڈاکٹر محمد الاشقر نے اپنے ایک مقالے میں احادیث ِطب کی مختلف اقسام کی ہیں۔ان کے مطابق وہ احادیث شرعاًحجت ہیں جن میں طبی عمل اور بیماریوں کے علاج معالجہ کا حکم دیا گیا ہے،زمانہء جاہلیت میں مروّج بعض باطل طریقہء علاج کی نفی کی گئی ہے اور اسی طرح وہ احادیث جن کی بنیاد نصِ قرآنی ہے مثلاًشہد کے متعلق ،۔نیز وہ دوا اور معالجات جن کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہو کہ یہ وحی کے ذریعے تعلیم دیے گئے ہیں ،دو شرطوں کے ساتھ وہ بھی شرعاًحجت ہیں :
۔وہ احادیث صحت کے اونچے درجے پر ہوں
۔ماہرینِ طب کے تجربات بھی اس کے موافق ہوں۔
احادیثِ طب کی یہ تمام اقسام شرعاًحجت ہیں اور ان میں آپﷺ کی اتباع بھی ضروری ہے۔
احادیث طب کی دوسری قسم وہ ہے جو شرعا حجت نہیں ۔اس میں وہ تمام احادیثِ نبویہ ہیں جو دوا اور علاج کے متعلق وارد ہوئی ہیں جن میں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا شرع کی قبیل سے ہیں۔پھر ڈاکٹر الاشقر بطور مثال متعدد کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے یہ محسوس کیا جا سکے احادیث لائے ہیں جن میں آپﷺنے کسی چیز کے متعلق جزم کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ اس میں شفا ہے ۔تاہم ڈاکٹر الاشقر یہ بھی لکھتے ہیں کہ بعض علما کے نزدیک ان میں سے بعض ارشادات کی حیثییت تشریع کی ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان ارشادات کو بالکلیہ چھوڑ دینا بھی درست نہیں بلکہ ان میں دیگر طبی اقوال کے مقابلے میں وحی ہونے کا ایک خفیف شبہ بھی موجود ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
إنه وإن قلنا في أحاديث هذا النوع الثاني وأمثالها: إنها ليست حجة في الأمور الطبية، فإنه لا ينبغي مع ذلك اطراحها بالكلية، بل ينبغي أن تثير احتمالا بالصحة، كسائر الأقوال الطبية المأثورة عن أهل التجارب والمعرفة من غير أهل الاختصاص، بل هي أولى منها، للشبهة في أنها قد تكون مبنية على الوحي، ولو كانت شبهة ضعيفة،[13].
یعنی اگرچہ (علاج معالجے) سے متعلق یہ دوسری قسم کی احادیث طبی معاملات میں حجت نہیں لیکن انہیں بالکل چھوڑ دینا بھی درست نہیں بلکہ ان کی صحت کا احتمال زیادہ ہونا چاہیے،جیسا کہ تجربہ کار اور جاننے والے تمام ان لوگوں سے منقول طبی اقوال کی حیثیت ہوتی ہے جو خاص فن کے ماہرین نہیں ہوتے۔بلکہ یہ تو وحی کا شبہ ہونے کی وجہ سے زیادہ حق دار ہوتے ہیں،اگرچہ معمولی شبہ ہی کیوں نہ ہو۔
ڈاکٹر شرف محمود القضاۃ :
الاستاذ الدکتور شرف محمود القضاۃ کا ایک وقیع مقالہ ھل احادیث طب وحی کے عنوان سے جامعہ موتہ کے مجلّہ میں چھپا ہے۔اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ احادیثِ طب وحی ہیں۔اس نتیجے کا مدار دو باتوں کو بنایا گیا ہے
أولهما: أن أحاديث الطب النبوي لم تقع في الأخطاء التي كانت شائعة في بيعة النبي صلى الله
علیہ وسلم وعصره، مما يدل على أنها ليست من البيئة.
ثانيهما: أن في أحاديث الطب النبوي سبق عملي في مجالات متعددة، سواء ما كان منها في
خلق الإنسان، أو في المرض والوقاية والعلاج.
اول: احادیثِ طب میں ایسی کوئی خطا واقع نہیں ہوئی جو نبیﷺ کے ماحول اور زمانے میں عام تھیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کے یہ ارشادات ماحول سے اخذ کردہ نہیں تھے۔
دوم: احادیثِ طب میں طب کے مختلف شعبوں میں کام کے حوالے سے سبقت ہے چاہے انسانی تخلیق کے متعلق ہو ،چاہےمرض ،احتیاط اور علاج کے متعلق ہو۔
فاضل محقق نے آنحضرتﷺ کے طب سے متعلق بعض ارشادات پر عصرِحاضر کے سائنسی انکشافات کے حوالے سے بحث بھی کی ہے مثلاً مسواک کی افادیت کے متعلق ارشاد نقل کرکے مسواک سے متعلق جدید سائنسی تحقیقات،حدیثِ ذباب کی جدید تحقیقات کے تناظر میں تشریح،شہد کے متعلق ارشاد اور جدید تحقیقات سے شہد کی افادیت پر استشہاد وغیرہ۔
ڈاکٹر عبد الرحمٰن رمضان الازہری:
جامعۃ الازہر کے مدرسۃ البنات کے استاد د۔ عبد الرحمٰن رمضان الازہری صاحب کا مقالہ الطب النبوی بین القبول والرد میں بڑی جانفشانی سے موضوع زیرِبحث پر قدیم وجدید کئی اہلِ علم کی آرا کو جمع کیا گیا ہے۔مقالہ نگار نے طبِ نبوی کو وحی نہ ماننے والے علما پر نقد کی ہے [14] اور احادیثِ طب سے استفادہ کا ایک طریقہ کار بھی پیش کیا ہے۔اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیثِ طب وحی ہیں۔مقالہ نگار نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کو بھی ان علما میں شمار کیا ہے جو احادیثِ طب کو وحی نہیں مانتے ۔لیکن ہمارے خیال میں شاہ صاحب کے متعلق یہ بات درست نہیں بلکہ شاہ صاحب طب کے متعلق تعلیمات کو ان علومِ نبوی میں شمار نہیں کرتے جن کی اتباع امت پر واجب ہے۔اس کی مزید تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
منتخب احادیثِ طب کا مطالعہ
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتبِ حدیث سے طبِ نبوی سے متعلق ارشادات منتخب کرکے دیکھا جائے کہ آنحضرت ﷺ ان ارشادات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمارہے ہیں،صرف مشورہ دے رہے ہیں یا تابیرِنخلہ والے واقعے کی طرح اپنا خیال ظاہر فرما رہے ہیں۔کوشش کی جائے گی کہ ایسی احادیث لائی جائیں جن میں علاج کے متعلق کوئی اصولی بات ذکر کی گئی ہو،یا کسی بیماری کے متعلق کسی دوا کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بات فرمائی گئی ہو،یا کوئی ایسا ارشاد ہو جس سے آنے والے ادوار میں طب کی کوئی نئی جہت سامنے آئی ہو۔
1- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً»[15]
ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو
ف: رسولِ اکرم ﷺ جزم (پختگی) کے ساتھ تمام بیماریوں کیلیے شفا یعنی دوا کی خبر دے رہے ہیں۔لہٰذا یقینا ہر بیماری کا علاج موجود ہے،تاہم یہ ممکن ہے کہ طبی مشاہدات اور تجربات ابھی تک اس دوا کو دریافت نہ کر سکے ہوں۔
2- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ أَبُو الحَارِثِ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ، عَنْ سَالِمٍ الأَفْطَسِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الشِّفَاءُ فِي ثَلاَثَةٍ: فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، أَوْ كَيَّةٍ بِنَارٍ، وَأَنَا أَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الكَيِّ [16]
عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شفاء تین چیزوں میں ہے پچھنا لگوانے میں ، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں ۔
ف: شَرْطَةِ مِحْجَمٍ:یعنی وہ آلہ جس سے حجامہ میں خون نکالا جاتا ہے مراد حجامہ کرانا
شَرْبَةِ عَسَلٍ:یعنی شہد پینا
كَيَّةٍ بِنَارٍ:یعنی آگ سے داغ لگوانا
رسولِ اکرم ﷺ تین چیزوں کا شفا کا سبب قرار دے رہے ہیں۔لیکن یہاں حصر نہیں کہ شفا صرف انہی تین چیزوں میں ہےبلکہ ممکن ہے کہ ا ن کے علاوہ میں بھی شفا ہو ۔لیکن آپ ﷺ کے عہد میں اکثر لوگ ان ہی تین طریقوں کا استعمال کرتے تھے۔آخر میں آپ ﷺ نے ازراہِ شفقت امت کو آگ سے داغ لگوانے سے منع فرمایا۔تاہم اگر ماہر طبیب اسی کو سببِ شفا کہے تو اجازت ہے۔
3۔ حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي المُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَخِي يَشْتَكِي بَطْنَهُ، فَقَالَ: «اسْقِهِ عَسَلًا» ثُمَّ أَتَى الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: «اسْقِهِ عَسَلًا» ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ: «اسْقِهِ عَسَلًا» ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ؟ فَقَالَ: «صَدَقَ اللَّهُ، وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ، اسْقِهِ عَسَلًا» فَسَقَاهُ فَبَرَأَ[17]
ابو سعید خدری ؓ راوی ہیں کہ ایک صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا بھائی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں شہد پلا پھر دوسری مرتبہ وہی صحابی حاضر ہوئے ۔ آپ ﷺ نے اسے اس مرتبہ بھی شہد پلانے کے لیے کہا وہ پھر تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا کہ (حکم کے مطابق) میں نے عمل کیا (لیکن شفاء نہیں ہوئی) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، انہیں پھر شہد پلا ۔ چنانچہ انہوں نے شہد پھر پلایا اور اسی سے وہ تندرست ہو گیا ۔
ف:چونکہ قرآنِ کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہد کو شفاءللناس لوگوں کیلیے شفا قراردیا لہٰذا اللہ کے پاک پیغمبر ﷺ کو شہد سے شفا ملنے کا پورا یقین تھا۔شارحین نے اس کی توجیہ کئی طرح سے کی ہے ۔تاہم اس سے دوا کے استعمال اور درست مقدار کے اصول پر بھی روشنی ڈلتی ہے۔
4- - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ نَاسًا اجْتَوَوْا فِي المَدِينَةِ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ - يَعْنِي الإِبِلَ - فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَسَاقُوا الإِبِلَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي طَلَبِهِمْ فَجِيءَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ» قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: «أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الحُدُودُ[18]
انس ؓ راوی ہیں کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ (نبی کریم ﷺ ) کے چرواہے کے ہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں ۔ چنانچہ وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا) ۔ قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔
ف: اس واقعے میں آنحضرت ﷺ نے اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا تجویز کیا۔امام ابو حنیفہ ؒ اس کی توجیہ اس طرح کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے بتلادیا گیا تھا کہ ان لوگوں کی شفا اسی میں ہے۔یہ ایک خاص حکم تھا ۔
5- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: خَرَجْنَا وَمَعَنَا غَالِبُ بْنُ أَبْجَرَ فَمَرِضَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَدِمْنَا المَدِينَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَعَادَهُ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، فَقَالَ لَنَا: عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الحُبَيْبَةِ السَّوْدَاءِ، فَخُذُوا مِنْهَا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا فَاسْحَقُوهَا، ثُمَّ اقْطُرُوهَا فِي أَنْفِهِ بِقَطَرَاتِ زَيْتٍ، فِي هَذَا الجَانِبِ وَفِي هَذَا الجَانِبِ، فَإِنَّ عَائِشَةَ، حَدَّثَتْنِي: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذِهِ الحَبَّةَ السَّوْدَاءَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا مِنَ السَّامِ» قُلْتُ: وَمَا السَّامُ؟ قَالَ: المَوْتُ[19]
خالد بن سعد نے بیان کیا کہ ہم باہر گئے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ غالب بن ابجر ؓ بھی تھے ۔ وہ راستہ میں بیمار پڑ گئے پھر جب ہم مدینہ واپس آئے اس وقت بھی وہ بیمار ہی تھے ۔ ابن ابی عتیق ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور ہم سے کہا کہ انہیں یہ کالے دانے (کلونجی) استعمال کراؤ ، اس کے پانچ یا سات دانے لے کر پیس لو اور پھر زیتون کے تیل میں ملا کر (ناک کے) اس طرف اور اس طرف اسے قطرہ قطرہ کر کے ٹپکاؤ ۔ کیونکہ عائشہ ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کلونجی ہر بیماری کی دوا ہے سوا « سام » کے ۔ میں نے عرض کیا « سام » کیا ہے ؟ فرمایا کہ موت ہے ۔
ف:رسولِ اکرم ﷺ تاکید کے ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں کی کلونجی میں موت کے علاوہ ہر مرض سے شفا ہے۔نبی اکرم ﷺ عموم کے ساتھ کلونجی کی فضیلت ارشاد فرمارہے ہیں ۔البتہ راوی کلونجی کے استعمال کا ایک خاص طریقہ بتا رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلونجی یا دیگر دواوں سے استفادہ کیلیے مطلوبہ طریقہء استعمال کی رعایت بھی ضروری ہے۔
6- حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أُمَّ قَيْسٍ بِنْتَ مِحْصَنٍ الأَسَدِيَّةَ، أَسَدَ خُزَيْمَةَ، وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ أُخْتُ عُكَاشَةَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنٍ لَهَا قَدْ أَعْلَقَتْ عَلَيْهِ مِنَ العُذْرَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى مَا تَدْغَرْنَ أَوْلاَدَكُنَّ بِهَذَا الْعِلاَقِ، عَلَيْكُمْ بِهَذَا العُودِ الهِنْدِيِّ، فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ، مِنْهَا ذَاتُ الجَنْبِ» يُرِيدُ الكُسْتَ، وَهُوَ العُودُ الهِنْدِيُّ، وَقَالَ يُونُسُ، وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ: «عَلَّقَتْ عَلَيْهِ»[20]
عکاشہ بن محصن ؓ کی بہن امِ قیس بنتِ محصن نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر آئیں ۔ انہوں نے اپنے لڑکے کے « عذرۃ » کا علاج تالو دبا کر کیا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، آخر تم عورتیں کیوں اپنی اولاد کو یوں تالو دبا کر تکلیف پہنچاتی ہو ۔ تمہیں چاہیئے کہ اس مرض میں عود ہندی کا استعمال کیا کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے ۔ ان میں ایک ذات الجنب کی بیماری بھی ہے ۔ (عود ہندی سے) نبی کریم ﷺ کی مراد « كست » تھی یہی عود ہندی ہے ۔
ف:اس جگہ نبی اکرم ﷺ نے عودِ ہندی کو سات بیماریوں سے شفا کا سبب قرار دیا ہے۔اس کی مراد میں حافط ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سات بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں اور علاج کے سات اصول بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ سات کا عدد حقیقی طور پر مراد نہ ہو بلکہ کئی بیماریوں کے علاج کیلیے بولا گیا ہو۔[21]
بہرحال اس وقت غور طلب بات یہ ہے کہ کیا سرکارِدو عالم ﷺ علمِ طب پڑھے ہوئے تھے۔یقیناً نہیں۔تو پھر آپ ﷺ اس پختگی کے ساتھ اس میں رائے کیونکر دے رہے ہیں۔ ممکن ہے اس کے جواب میں کوئی یہ کہے کہ یہ اس وقت معاشرے میں خبرِ مشہور کی طرح عام تھیں۔لیکن اس جواب پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ اتنی عام بات تھی تو حدیث روایت کرنے والی خاتون کو کیوں معلوم نہیں ہوا یا اگر معلوم تھا تو عمل کیوں نہیں کیا۔اس کا جواب بظاہر یہ ہی نظر آتا ہے کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی گئی تھی
7- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، مَوْلَى بَنِي تَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، مَوْلَى بَنِي زُرَيْقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ، ثُمَّ لِيَطْرَحْهُ، فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً، وَفِي الآخَرِ دَاءً»[22]
ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفاء اور دوسرے میں بیماری ہے.
ف:آنحضرت ﷺ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے پر میں اس بیماری کا علاج بتلا رہے ہیں۔اس ارشادِ مبارک کو اگر جدید تحقیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکھی کے پروں کی اس متضاد حالت کو آپ ﷺ نےوحی کے ذریعے معلوم کرکے خبر دی ہے۔جدید تحقیقات کے مطابق مکھی کے ایک پر میں اگر جراثیم ہوتے ہیں
تو دوسرے پر میں اس مضر حیاتیاتی مادے کی ضد موجود ہوتی ہے ۔[23]
8- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ أَبُو بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: («مَنِ اصْطَبَحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ، لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ اليَوْمَ سَمٌّ، وَلاَ سِحْرٌ»[24]
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو احمد بن بشیر ابوبکر نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم کو ہاشم بن ہاشم نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عامر بن سعد نے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لے اسے اس دن زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو ۔ “
ف:عجوہ کھجور کی یہ منفرد خاصیت سرکارِدو عالم ﷺ اس انداز میں ارشاد فرما رہے ہیں جس سے اسے کھانے کی ترغیب ملتی ہے۔ایک شفیق نبی ءبرحق کی زبان سے نکلنے والا یہ جملہ جس یقین کے ساتھ ارشاد ہو رہا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی گئی ہے۔
9- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، يُحَدِّثُ سَعْدًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا، وَلاَ يُنْكِرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ[25]
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما، سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ے فرمایا کہ جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت۔
ف: نبیء اکرم ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کے بہت سے فوائد میں سے دو فائدے خاص طور پر مشاہدہ کیے جاتے ہیں:
۱۔اس کے ذریعے ایسی متعدی بیماریاں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بندوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا پھیلاو کم ہو جاتا ہے
۲۔اس کے ذریعے بیماروں کو دیکھ بھال کرنے والے میسر آجاتے ہیں ورنہ اگر سبھی وبا والی جگہ سے چلے جائیں تو بیمار یوں ہی بیمار پڑے رہ کر یا تو مزید بگڑ جائیں گے یا مر جائیں گے۔
آج دنیا متعدی امراض سے بچاو کے لئے کم وبیش یہی لائحہ عمل اختیار کررہی ہے۔امراض کی روک تھام کی اس حکیمانہ ترکیب کو نبوی حکمت اور علمِ الٰہی کی روشنی ہی کہنا پڑے گا۔
10- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، اشْتَكَيْتُ، فَقَالَ أَنَسٌ: أَلاَ أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ البَاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لاَ شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا»[26]
عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا کہ میں اور ثابت بنانی انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ثابت نے کہا : ابوحمزہ ! (انس ؓ کی کنیت) میری طبیعت خراب ہو گئی ہے ۔ انس ؓ نے کہا پھر کیوں نہ میں تم پر وہ دعا پڑھ کر دم کر دوں جسے رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے ، ثابت نے کہا کہ ضرور کیجئے ۔ انس ؓ نے اس پر یہ دعا پڑھ کر دم کیا « اللہم رب الناس مذہب الباس اشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت ، شفاء لا يغادر سقما » ” اے اللہ ! لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور کر دینے والے ! شفاء عطا فرما ، تو ہی شفاء دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفاء دینے والا نہیں ، ایسی شفاء عطا فرما کہ بیماری بالکل باقی نہ رہے ۔
11- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَى مِنَ العَيْنِ»[27]
عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَاسے روایت ہے کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ نظر سے رقیہ (دم) کیا جائے۔
ف:نظر کا لگنا ایک ایسی چیز ہے جس پر اطلاع وحی کے ذریعے دی گئی ہوگی۔طبی قرائن کے ذریعے بیماریوں کے متعلق اہلِ فن خبر دیتے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ باقاعدہ طبیبِ جسمانی نہیں تھے۔آپ ﷺ نے ایک ایسی بیماری کو جس کے حسی اسباب نہیں تھے نظر قرار دے کر اس کا علاج بھی پاکیزہ کلام سے تجویز فرمایا۔
12۔ - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا، وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ، وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ [28]
_سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”مہاجرو! پانچ (آزمائشیں) ہیں جن میں تم مبتلا ہو گے اور میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ: (۱) جب کسی قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے اور وہ اعلانیہ اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان میں طاعون اور مختلف بیماریاں، جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں، پھیل جاتی ہیں۔ (۲) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو انہیں قحط سالیاں، سخت تکلیفیں اور بادشاہوں کے ظلم دبوچ لیتے ہیں۔ (۳) جب لوگ زکوٰۃ ادا کرنے سے رک جاتے ہیں تو آسمان سے بارش کا نزول بند ہو جاتا ہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر بارش نازل نہ ہوتی۔ (۴) جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمنوں جن کا تعلق ان کے غیروں سے ہوتا ہے کو مسلط کر دیتا ہے جو ان سے ان کے بعض اموال چھین لیتے ہیں اور (۵) جب مسلمانوں کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور اس کے نازل کردہ قوانین کو ترجیح نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کو آپس میں لڑا دیتا ہے۔
ف:آنحضرت ﷺ طاعون اور دیگر نئی نئی بیماریوں کا سبب فواحش کے عام چلن کو قرار دے رہے ہیں۔طاعون ایک متعدی مہلک مرض ہے۔اس کی حفاظتی تدبیر یہ ہے کہ مریض اور صحت مند افراد کو ایک دوسرے سے دور رکھا جائے۔اس کے علاوہ جنسی اختلاط سے نئی نئی بیماریاں آج کی دنیا میں کھل کر آچکی ہیں۔آج بے لگام جنسی اختلاط سے طرح طرح کی بیماریاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں جن کے لیے علاج متعین کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔آنحضرت ﷺ نورِ نبوت سے یہ سب کچھ بھانپ کر امت کو مطلع فرما رہے ہیں
13۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَيْدٍ الْجُعْفِيَّ، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَمْرِ، فَنَهَاهُ - أَوْ كَرِهَ - أَنْ يَصْنَعَهَا، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: «إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ، وَلَكِنَّهُ دَاءٌ»[29]
حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب ( بنانے ) کےمتعلق سوا ل کیا ، آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا ، انھوں نےکہا : میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ دوا نہیں ہے ، بلکہ خود بیماری ہے ۔
ف: شرا ب پینے سے آدمی کی عقل تو متاثر ہوتی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ واہی تباہی بھی بکتا ہے لیکن جسمانی صحت پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔شراب دل کے دورے کے امکانات بڑھاتی ہے،معدہ اور جگر کو شدید متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں پورا بدن متاثر ہوتا ہے۔یورپ اور امریکا میں ٹریفک ایکسیڈنٹ کی ایک اہم وجہ شرا ب وغیرہ کے نشے میں ڈرائیونگ کرنا بھی ہے۔قرآنِ کریم شراب کو گندگی اور شیطانی عمل قرار دیتا ہے اور آنحضرت ﷺ بھی شراب کو نری بیماری بتلا رہے ہیں۔یہ نبوت کا اعجاز ہی ہے جو ایک امیّ شخص کی بات بات پر زمانے کو سر جھکا دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔
احادیثِ طب سے استفادہ کا ضابطہ
اوپر ذکر کردہ احادیث میں آنحضرتﷺ کے طرزِتکلم کو بحیثیتِ مجموعی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشادات وحی کی روشنی میں صادر ہوئے ہیں۔تاہم جیسا کہ بعض جگہوں پر آپﷺ نےخود یا راوی نے علاج کیلیے خاص صورت بھی مقرر فرمائی،لہٰذا ان ارشادات سے فائدہ اٹھانے کیلیے ضابطہ مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔ذیل میں کچھ نکات میں احادیثِ طب سے استفادے کا ضابطہ لکھا جاتا ہے:
۱۔سب سے اول یہ دیکھنا ضروری ہے کہ روایت کی استنادی حیثیت کیا ہے؟محدثین نے اسے کس درجے میں رکھا ہے؟ جسم ِ انسانی پر کسی دوا کا استعمال یا ایسے تجربات جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہو معمولی بات نہیں۔نیز آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کو بطور اعجاز پیش کرنے سے پہلے خود اس روایت کے متن اور سند کو دیکھنا ضروری ہے تاکہ کسی اعتراض کرنے والے کو اس پر اعتراض کا موقع ہی نہ مل سکے ۔اور اگر کوئی اعتراض کیا بھی جائے تو اس کا تسلی بخش جواب دیاجاسکے۔
۲۔اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے کہ فنِ طب ایک پیچیدہ اور مختلف انواع کی جزئیات کا حامل ہے۔ایک دوا جو ایک کیفیت میں ایک مرض کے لیے مفید ہوتی ہے،وہی دوا ایک دوسر ی حالت میں اسی مرض کے لیے نقصان دہ بن سکتی ہے۔بسا اوقات ایک دوا جو عام حالا ت میں مفید ہوتی ہے،وہ کسی دوسری دوا کے ساتھ مضر ہو جاتی ہے۔طبِ جدید میں دواوں کے باہمی ردِعمل Drug Interactions سے بھی بحث کی جاتی ہے تاکہ دو مختلف دواؤں کو استعمال کرتے ہوئے ان کے متضاد اثرات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔لہٰذا آنحضرت ﷺ کے ارشاد فرمودہ نسخوں کو مطلوبہ معلومات کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔
۳۔مخصوص پس منظر جس میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اسے سمجھنا بھی ضروری ہے۔عین ممکن ہے کہ وہ ارشادِ گرامی کسی خاص ماحول یا خاص علاقے کے لوگوں کے لیے ہو ،اس سے ایک عمومی تعلیم مقصود نہ ہو جیسے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے لیے اونٹ کے پیشاب کو تجویز کیا جانا۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق اس واقعے سے اونٹ کے پیشاب کی پاکی پر استدلال درست نہیں کیونکہ یہ ایک خاص صورت تھی جو ان لوگوں کیلیے مقرر کی گئی تھی۔[30]
۴۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے
«مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ قَبْلَ ذَلِكَ فَهُوَ ضَامِنٌ»[31]
جس نے علاج کیا حالانکہ اس سے پہلے وہ طب میں معروف نہیں تھا تو وہ (نقصان کا )ضامن ہو گا۔
لہٰذا دنیا کے دیگر علوم و فنون کی طرح یہاں بھی فقط کتاب دیکھ کر علاج معالجہ کرنا کروانا کافی نہیں۔یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ کسی کو اپنے حسنِ اعتقاد کی وجہ سے فائدہ ہو جائے تو اس سے عمومی قاعدہ نہیں نکالا جائے گا۔دوا کی مقدار،مدت اور طریقہء استعمال کے حوالے سے ماہرینِ طب سے مشورہ بھی ضروری ہے۔
نتائجِ بحث:
نبیء اکرم ﷺ سے منقول احادیث ِ طب اور معالجات کی شرعی حیثیت پر قدیم و جدید اہلِ علم کی آرا اور پھر براہ ِراست ان میں سے منتخب ارشادات ِ نبویﷺ کو پیش کرنے کے بعد جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ:
۱۔آنحضرت ﷺ سے منقول علاج معالجہ کا ایک بڑا حصہ ،آپﷺ کو وحی کے طور پر تعلیم کیا گیا ۔
۲۔تاہم بعض معالجات ،آپﷺ نےاپنے عرف یا تجربے کی بنیاد پر بھی ارشاد فرمائے۔
۳۔البتہ ان میں سے جو ارشادات بھی آپﷺ نے جزم کے ساتھ ارشاد فرمائے اور ہم تک صحیح طریقوں سے پہنچے ،وہ اصل طبی حقائق کے خلاف نہیں ہوسکتے ۔
۴۔عام حالات میں امت پر ان معالجات اور دواؤں کو اپنانا لازم نہیں کہ اگر کوئی شخص انہیں استعمال نہ کرے تو گنہگار ہو۔البتہ آنحضرتﷺ سے منسوب ہونے کی وجہ سے باعثِ خیروبرکت ضرور ہوگا۔
۴۔اگر کسی طبی ارشادِ نبویﷺ میں کوئی بات خلافِ واقع معلوم ہورہی ہو اور وہ ارشادِ گرامی صحیح طُرق سے ثابت بھی ہو تو یا تو وہ ارشاد کسی خاص شخص یا جگہ کے بارے میں وارد ہوا ہے یا اس کی کوئی جہت ایسی ہے جس کا انکشاف ابھی تک نہیں ہو سکا۔
۶۔طب سے متعلق ارشاداتِ نبوی ﷺ سے استفادہ کرتے ہوئے ماہرینِ فن سے طریقہء استعمال معلوم کرنا بھی ضروری ہے اور اس میں ان کی رائے کا اعتبار کیا جائے گا۔
الهیثمی،نورالدین مجمع الزوائد و منبع الفوائد،باب فی حسن خلقه و حيائه و حسن معاشرته 14188 مكتبة القدسى القاهره 1414ه[1]
اریخ ابن خلدون الفصل الخامس والعشرون في علم الطب،ص650ج 1،دار الفکر،بیروت،1408ھ[2]
ابن القیم،حافظ،زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ،ص 33ج4،موسسہ الرسالہ ،بیروت،1415ھ[3]
الدہلوی،شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللہ البالغہ،المبحث السابع،ص223،224،دار الجیل،بیروت ،1426ھ [5]
العثما نی،مفتی محمد تقی،تکملہ فتح الملھم،ص 294 ج 4 ،مکتبہ دارالعلوم ،کراتشی[6]
مسلم،کتاب الفضائل،باب وجوب امتثالہ ما قالہ شرعاً،6082[9]
العثما نی،مفتی محمد تقی،تکملہ فتح الملھم،ص 294 ج 4 [10]
القرضاوی،شیخ یوسف ، السنّہ مصدراً للمعرفۃ والحضارۃ،ص 72،دار الشروق ،القاھرہ ،الطبعۃ الثالثۃ، ،1423ھ[11]
طبِ نبوی کی شرعی حیثیت https://afkarenau.com/?p=2197[12]
وانظر الطب النبوی بین القبول والرد ص981https://islamonline.net/archive/أحاديث-الطب-النبوي-هل-يُحتج-بها؟/ [13]
الطب النبوی بین القبول والرد فی مجلہ اصول الدین والدعوہ بأ سیوط ۔ العدد الثامن والثلاثون ۲۰۲۰م الجزء الثالث ص981[14]
بخارى، کتاب الطب، بَابُ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً، 5678 [15]
ابنِ حجر،حافظ،فتح الباری،ص 148 ج10 دار المعرفہ،بیروت،1379ھ[21]
5782بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الإِنَاء ایضاً،[22]
سالم،امین محمد،حول حدیث الذباب،،ص 52الیٰ55، الجامعۃ الاسلامیۃ المدینۃ المنورۃ،1402ھ[23]
[24]ایضا، بَابُ شُرْبِ السُّمِّ وَالدَّوَاءِ بِهِ وَبِمَا يُخَافُ مِنْهُ وَالخَبِيثِ ،5779
ایضا،بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الطَّاعُون5728[25]
5742بَابُ رُقْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ایضاً،[26]
5738بَابُ رُقْيَةِ العَيْنِ ایضا[27]
سنن ابن ماجہ،بَابُ الْعُقُوبَاتِ،4019[28]
[29] صحیح مسلم،کتاب الاشربہ بَابُ تَحْرِيمِ التَّدَاوِي بِالْخَمْر،1984
العینی بدر الدین،عمدۃ القاری،ص153ج3،دار احیاء التراث،بیروت [30]
سنن النسائی،کتاب الطب،باب مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ ،3466[31]