کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونا سنت ہے؟
آج کل سوشل میڈیا پہ ایک کلپ چل رہا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونا سنت ہے، بعض حضرات اجتہادجدید کے ذریعہ اہل سنت والجماعت کے طے شدہ مسلمات سے صرف نظر کر کے ظاہر احادیث سے جدید اور نئی تشریحات مستنبط کررہے ہیں ، مزید یہ کہ اہل تشیع ان جیسے بیانات سے مروجہ ماتم کو سند شرعی فراہم کرنے کے لیے اسے خوب پھیلا رہے ہیں جس سے عوام اور اہل علم کے درمیان ایک اضطرابی کیفیت محسوس کی جانے لگی ہے، لوگ اب عقیدت کے حصار سے نکل کر اس نوعیت کے بیانات پر سوالات اٹھانے لگے ہیں، کئی دوستوں نے استفسار کیا تو یہ ضروری سمجھا کہ سوگ ، میت پر رونے دھونے ، ماتم کرنے اور اس دعوی پر اختصار کے ساتھ کچھ قلمبند کیا جائے کہ کیا واقعی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونا سنت ہے ؟۔
اس حوالہ سے خود سے کچھ لکھنے کے بجائے ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ میں وارد ایک مضمون اختصار کے ساتھ نقل کرتا ہوں، اس کے بعد کلپ کے مشمولات پر گفتگو کریں گے :
مغربی تہذیب کی تقلید اور اس سے مرعوبیت کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنی ناراضگی کے اظہار اور سوگ وماتم کے بعض ایسے طریقے اپنائے ہیں جو سراسر غیر اسلامی ہیں۔ مثلاً: یوم سیاہ منانا‘ تھوڑی دیر خاموش رہنا‘ جھنڈے سرنگوں کردینا‘ سیاہ پٹیاں باندھنا‘ تابوت کی تعزیہ کرنا اور ماتمی دھن بجانا وغیرہ اظہار غم وناراضگی کے یہ سب ہی طریقے ناجائز اور غیر شرعی ہیں ۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ کسی کے غم میں غیر اختیاری یا فطری طور پر بے ساختہ آنسو نکل پڑیں تو صرف اس کی اجازت ہے‘ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
{عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفٍ الْقَيْنِ وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُون}.
(صحیح بخاری‘ ج:۱‘ ص:۱۷۴)
ترجمہ:․․․”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ ابی سیف القین کے گھر داخل ہوئے جو (حضور ﷺ کے فرزند ارجمند) ابراہیم کے مرضعہ کا گھر تھا (ظئر اس مرد کو بھی کہا جاتا ہے جس کی بیوی کسی بچے کو دودھ پلاتی ہو) حضورا نے ابراہیم کو اٹھا کر چوما اور سونگھا‘ پھر ہم وہاں داخل ہوئے‘ اس دوران ابراہیم کا روح پرواز کررہا تھا تو حضورا کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے‘ حضورا کو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ﷺبھی (روتے ہیں) یا رسول اللہ ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہے‘ پھر دوبارہ اسی طرح کیااور فرمایا: بے شک آنسو بہتے ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم نہیں کہتے مگر وہ جو اللہ کی رضا ہو‘ اور اے ابراہیم تیری جدائی کی وجہ سے ہم غمگین ہیں“۔
اسلام سے پہلے بھی سوگ وماتم کے کچھ ایسے طریقے مروج تھے‘ مثلاً: نوحہ اور گریہ وزاری کرنا‘ کپڑے پھاڑنا اور رونا پیٹنا وغیرہ‘ لیکن حضورا نے ان سب سے منع کرتے ہوئے فرمایا: جو سر کے بال منڈالے‘ چلا کے روئے اور کپڑے پھاڑ لے‘ میں اس سے بری ہوں ‘ جیساکہ بخاری شریف کی حدیث میں ہے:
{إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِئَ مِنْ الصَّالِقَةِ وَالْحَالِقَةِ وَالشَّاقَّة }.(صحیح بخاری‘ ج:۱ ص:۱۷۳)
ترجمہ:․․․”حضورﷺ نوحہ کرنے والے‘ گلا نوچنے والے اور گریبان چاک کرنے والوں سے بری ہے“۔
اور صرف یہ نہیں بلکہ ایک حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
{عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ}.(صحیح بخاری‘ ج:۱ ص:۱۷۳)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جس نے اپنا منہ پیٹا اور گریبان چاک کیا اور شور مچایا‘ مانند شور مچانے وقت جاہلیت کے“۔
فقہاء نے بھی اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے اور فرمایا کہ میت پر بلند آواز اور چیخ وپکار کے ساتھ رونا حرام ہے.
(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ ج:۱‘ ص:۴۵۱).
لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کے علاوہ کسی کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں دی‘ صرف بیوی کو چار ماہ دس دن (عدت گزارنے) کے لئے شوہر کا سوگ کرنے کی اجازت دی ہے۔
(جدید فقہی مسائل‘ ج:۱‘ص:۳۰۶)
فقہاء نے اس مقصد کے لئے سیاہ کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے‘ جس طرح کہ عالمگیری میں درج ہے: "وَلَا يَجُوزُ صَبْغُ الثِّيَابِ أَسْوَدَ أَوْ أَكْهَبَ تَأَسُّفًا عَلَى الْمَيِّتِ قَالَ صَدْرُ الْحُسَامِ لَا يَجُوزُ تَسْوِيدُ الثِّيَابِ فِي مَنْزِلِ الْمَيِّتِ".
(عالمگیری‘ ج:۵‘ص:۳۳۳)
ترجمہ:․․․”میت پر ماتم کرتے ہوئے کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگنا جائز نہیں ہے‘ نہ یہ جائز ہے کہ میت کے گھر کے کپڑے سیاہ رنگ میں رنگ دیئے جائیں“۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ. (مشکوٰة المصابیح‘ ‘ ص:۱۵۱)ترجمہ:․․․”حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ لعنت فرمائی حضورا نے نوحہ کرنے والی پر اور اس عورت پر جو نوحہ سنے“۔
لہذا مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ دور حاضر کے غیر شرعی اور رسمی ماتموں سمیت یوم سیاہ منانا‘ تھوڑی دیر خاموش رہنا‘ سیاہ پٹیاں باندھنا‘جھنڈے سرنگوں کردینا وغیرہ کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ دراصل مغربی تہذیب کی تقلید ہے جو مسلمانوں نے اپنائی ہیں‘ اگر کوئی مسلمان شریعت کے واضح احکامات کے باجود بھی ان غیر شرعی امور سے اجتناب نہیں کرتا تو پھر ایسے لوگوں پر حضورا کایہ فرمان بالکل صادق آتا ہے کہ: ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے‘ لہذا جو اغیار کی رسم اپناتا ہے‘ وہ اغیار ہی میں سے گنا جائے گا۔
(اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12)
غم کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بیان کرتے ہونے فرمایا:
كان من هديه صلى الله عليه وسلم : السكونُ والرضى بقضاء الله، والحمد للّه، والاسترجاع، ويبرأ ممن خرق لأجل المُصيبة ثيابَه، أو رفع صوتَه بالندب والنياحة، أو حلق لها شعره.
(زاد المعاد في هدي خير العباد :1/ 527).
نبی کریم صلی اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلوں پر سکون کے ساتھ راضی رہا کرتے تھے، اللہ کی حمد وثنابیان کرتے اور غم کے وقت "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا کرتے تھے اور مصیبت کے باعث کپڑے پھاڑنے والوں، بلند آواز سے بین اور نوحہ و ماتم کرنے والوں اور بال منڈانے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔
کلپ پر تبصرہ
اب اس کلپ کے الفاظ نقل کر کے اس پہ اختصار کے ساتھ کچھ عرض کیا جائے گا، اس کلپ میں ہے: "کربلا ایک پیغام ہے ، یہ صرف دس دن کے لیے رونے دھونے کا (نام نہیں)۔ بے شک حسین کے لیے رونا بھی سنت بھی سنت ہے، ہر شئے کو بدعت بدعت نہ بناؤ، ام سلمہ سے آپ نے فرمایا : ام سلمہ آج ایک فرشتہ ملنے آرہا ہے بہت خاص ، کسی کو اندر نہیں آنے دینا، حضرت ام سلمہ پہرے پہ کھڑی ہوگئیں، تھوڑی دیر میں حسین آگئے، چھوٹے بچے، معصوم ابھی، اندر جانے لگے، انہوں نے روک دیا تو وہ رونے لگے، وہ روئے تو انہوں نے چھوڑ دیا، تھوڑی دیر میں اندر سے میرے نبی کے زور زور سے رونے کی آواز آئی، زور زور سے رونے کی آواز آئی، ام سلمہ وہاں رہ نہ سکیں ، بھاگ کے اندر گئیں تو آپ نے کیا دیکھا کہ آپ نے حسین کو سینے سے یوں چمٹایا ہوا تھا اور یوں ہل ہل کے رو رہے تھے( واعظ صاحب نے ٹشو کاایک ڈبہ لے کر اپنے سینے سے لگا کر ہل ہل کر دکھایا) بلک بلک کے، سسک سسک کے رو رہے تھے، آپ کے آنسو آپ کے رخسار اور داڑہی کو تر کررہے تھے اور آپ نے یوں بھینچا ہوا ہے ایسے دبایا ہوا تھا تو حضرت ام سلمہ نے کہا میرے ماں باپ قربان یا رسول اللہ کیا ہوا؟ آپ ایسے تڑپ کے کیوں رو رہے ہیں؟ آپ نے روتی آواز میں کہا ، بہتے آنسوؤں کے ساتھ، کپکپاتے بدن کے ساتھ کہ ام سلمہ یہ فرشتہ جو مجھے ملنے آیا تھا یہ میرے بچے کو دیکھ کر کہہ رہا ہے کہ آپ کی امت اس بچے کو قتل کردے گی، اور جہاں اس کا خون گرے گا اس کی وہ مٹی مجھے دکھائی ہے اس نے، میں اس لیے اس پہ رو رہا ہوں۔ ابھی تو وہ شہید نہیں ہوئے تو رویا جارہا ہے اب تو ان کی شہادت پہ روتے ہیں بھئی، ہم تو ان کی شہادت پہ روتے ہیں، اور یہ قیامت تک روتی رہے گی دنیا، یہ اللہ کا نظام ہے اس نے کربلا کے واقعہ کو یوں کردیا کہ جیسے ہر سال آج ہی ہوا ہے، آج ہی حسین شہید ہورہا ہے۔۔۔الخ اس کے بعد چند مشہور تاریخی جملے دہرائے گئے"۔
یہاں دو روایتوں کو ملا ایک مضمون بنایا گیا ہے اور ایک خود ساختہ منظر کشی کی گئی ہے، قارئین کی خدمت میں سب سے پہلے ان روایات کا عربی متن پیش کر کے پھراس حدیث کی نام نہاد تشریح کی حقیقت واضح کی جائے گی۔
امام طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ تین روایتیں اس بارے میں نقل کی ہیں، جن میں سے علامہ ہیثمی کے بقول ایک کی سند کے رجال ثقہ ہیں، روایات اور ان کا ترجمہ بغور ملاحظہ فرمائیں، اس سے کلپ میں بیان کی گئی منظر کشی کی حقیقت بھی سامنے جائے گی:
أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (3/ 108) برقم: 2819 - حدثنا الحسين بن إسحاق التستري ثنا يحيى بن عبد الحميد الحماني ثنا سليمان بن بلال عن كثير بن زيد عن المطلب بن عبد الله بن حنطب : عن أم سلمة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم جالسا ذات يوم في بيتي فقال : لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين رضي الله عنه فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه و سلم يبكي فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه و سلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت : والله ما علمت حين دخل فقال : إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال : تحبه ؟ قلت : أما من الدنيا فنعم قال : إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل عليه السلام من تربتها فأراها النبي صلى الله عليه و سلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال : ما اسم هذه الأرض ؟ قالوا : كربلاء قال : صدق الله ورسوله أرض كرب وبلاء.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرماتھے آپ نے فرمایا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے یعنی کسی کو میرے پاس آنے مت دینا، میں نے (اس بات کا) انتظار کیا ( کہ کوئی آئے تو میں اسے روکوں، اتنے میں حضرت حسین رضی اللہ اندر داخل ہوئے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہچکی کی آوز سنی آپ رو رہے تھے، میں نے دیکھا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم روتے ہوئےان کی پیشانی پر ہاتھ پھیر رہے تھے ، میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم مجھے ان کے اندر آنے کا پتہ نہیں چلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جب حسین اندر آیاتو اس وقت ) جبرئیل ہمارے ساتھ گر میں موجود تھے انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ آپ کی امت عنقریب ان کو کربلا نامی جگہ قتل کرے گی، جبرئیل نے کربلا سے حضرت حسین کے مقتل سے مٹی لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی ۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لیے گھیرا جانے لگا تو انہوں نے پوچھا کہ اس جگہ کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے کہا کربلا، آپ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، یہ واقعی کرب وبلاکی جگہ ہے۔
یہی روایت آگے چل کر امام طبرانی نے دوبارہ نقل کی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
أخرجه فيه برقم:637 - حدثنا الحسين بن إسحاق ثنا يحيى الحماني ثنا سليمان بن بلال عن كثير بن زيد عن المطلب بن عبد الله بن حنطب عن أم سلمة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم جالسا ذات يوم في بيتي فقال : ( لا يدخل علي أحد ) فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه و سلم يبكي فاطلعت فإذا حسين في حجره أو إلى جنبه يمسح رأسه وهو يبكي فقلت : والله ما علمته حين دخل فقال رسول الله صلى الله وسلم : ( إن جبريل كان في البيت فقال : أتحبه ؟ قلت : أما في الدنيا فنعم قال : إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراه النبي صلى الله عليه و سلم ) فلما أحيط بحسين حين قتل قال : ما اسم هذه الأرض ؟ قالوا : كربلاء قال : صدق رسول الله صلى الله عليه و سلم أرض كرب وبلاء .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت
وأخرجه فيه برقم: 8096 - حدثنا علي بن سعيد الرازي ثنا إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة المروزي ثنا بن الحسن بن شفيق ثنا الحسين بن واقد حدثني أبو غالب عن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لنسائه : لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال : وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل عليه السلام فدخل رسول الله صلى الله عليه و سلم الداخل وقال لأم سلمة : لا تدعي أحدا يدخل فجاء الحسين رضي الله عنه فلما نظر إلى النبي صلى الله عليه و سلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد البكاء خلت عنه فدخل حتى جلس في حجر النبي صلى الله عليه و سلم فقال جبريل عليه السلام : إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلى الله عليه و سلم يقتلونه وهم مؤمنون بي ؟ قال : نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال : بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلى الله عليه و سلم فقد احتضن حسينا كاسف البال مهموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت : يا نبي الله جعلت لك الفداء إنك قلت لنا : لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني أن لا أدع يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلى أصحابه وهم جلوس فقال لهم : إن أمتي يقتلون هذا وفي القوم أبو بكر و عمر رضي الله عنهما وكانا أجرأ القوم عليه فقالا : يا نبي الله يقتلونه وهم مؤمنون ؟ قال : نعم وهذه تربته وأراهم إياها
قال الهيثمي في مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:(9/ 120): رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کی عورتوں سے فرمایا کہ اس بچہ یعنی حسین کو مت رلانا، اس دن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر پر قیام فرما تھے)، حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کسی کو اندر مت آنے دینا، اتنے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر اندر دیکھ کر اندر جانا چاہا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کواٹھا لیا (تو وہ رونے لگے) تو ان گود میں لے کر بہلانا اور غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا ، جب حضرت حسین رضی اللہ کا رونا بڑھ گیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ اندر داخل ہوئے اور جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے، حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلم نے فرمایا کہ آپ کی امت عنقریب آپ کے اس بیٹے کو قتل کردے گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھ پر ایمان رکھنے کے باوجود اسے قتل کردیں گے؟ حضرت جبریل نے فرمایا کہ ہوں وہ اسے قتل کردیں گے، حضرت جبریل نے مٹی لا کر دکھائی کہ فلاں جگہ قتل کردیں گے، (یہ سن کر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین کو سینہ سے لگا کر بدحال وغم گین ہو کر باہر تشریف لائے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا یہ گمان کیا کہ بچہ کے اندر جانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے ہیں، انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں آپ پر قربان جاؤں آپ نے ہم نے ہم سے یہ فرمایا تھا کہ اس بچہ کو مت رلانا اور مجھے یہ حکم فرمایا کہ میں اسے اندر داخل ہونے نہ دوں، جب یہ آیا تو میں اسے اندر جانے دیا (یعنی جب رونے لگا تو آپ کے پہلے والے ارشاد کہ اسے مت رلانا کے پیش نظر) ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی جوب نہیں دیا اور اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے جو (باہر ) بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے فرمایا کہ میری امت کے لوگ اسے قتل کرڈالیں گے، لوگوں میں حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تشریف فرماتھے اور وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے میں باقی لوگوں کی بنسبت باہمت تھے ، ان دونوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی کیا وہ اسے قتل کرڈالیں گے جب کہ وہ ایمان والے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اور فرمایا کہ یہ وہ مٹی ہے جس میں اسے شہید کیا جائے گا پس انہیں وہ مٹی دکھائی۔
ان دونوں روایات میں کہیں بھی " زور زور " سے رونے کا تذکرہ نہیں، البتہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی تو بشری تقاضہ کے تحت پدرانہ شفقت ومحبت کی وجہ سے فطری رد عمل کے اظہار میں غم گین ہوئے، شدت غم کی وجہ سے بے ساختہ آپ کو رونا آیا جسے روکتے ہوئے آپ کی ہچکی بندھ گئی، اس کو روایت میں راوی نے نشیج اور بکا سے تعبیر کیا ہے.
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے محبوب نبی پر اتارے ہوئےقرآن کریم میں یہ ایمان والوں کو نماز اور صبر سے مدد حاصل کرنے کی تلقین فرمائے اور ایمان والوں کے بارے میں یہ فرمائے کہ جب ان پر کوئی مصیبت وپریشانی آتی ہے تو وہ "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا کرتے ہیں، اور پیغمبر خدا زور زور سے روئے اور نعوذ باللہ بے صبری کا مظاہرہ کرے، نیز خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں امت کو ایسے مواقع پر رونے ،چیخنے چلانے اور بے صبری سے منع فرمایا ہے، لہذا اس طرح کی احادیث کے ظاہری الفاظ سے زور زور سے رونے کا استنباط نہ صرف شریعت کے احکامات کے خلاف ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وعمل کے بھی منافی ہے، ہاں البتہ شدت غم کی وجہ سے رونا آنا اور رونا اور اس وجہ سے آنکھ سے آنسو کا نکل آنا اور اور ضبط کرتے ہوئے ہچکی کا بندھ جانا یہ فطرت ہے۔
پس یہ کہنا : "بے شک حسین کے لیے رونا بھی سنت ہے، ہر شئے کو بدعت بدعت نہ بناؤ" کسی بھی طرح درست نہیں، بدعت وسنت کا فیصلہ فقہاء کرام کرتے ہیں، ماہرین فقہ وشریعت اہل افتا کسی بھی چیز کو بدعت بلا وجہ وبلا دلیل قرار نہیں دیتے، میت پہ رونا دھونا ، چیخنا چلانا، چہرہ پیٹنا سینہ کوبی کرنا اور تین دن سے زائد سوگ منانا نہ صرف یہ کہ زمانہ جاہلیت کے رسوم میں سے ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز ہے۔
اسی طرح کلپ میں کی گئی اس منظر کشی کا احادیث میں کوئی تذکرہ نہیں: "میرے نبی کے زور زور سے رونے کی آواز آئی، زور زور سے رونے کی آواز آئی۔۔۔۔آپ نے حسین کو سینے سے یوں چمٹایا ہوا تھا اور یوں ہل ہل کے رو رہے تھے( واعظ صاحب نے ٹشو کاایک ڈبہ لے کر اپنے سینے سے لگا کر ہل ہل کر دکھایا) بلک بلک کے، سسک سسک کے رو رہے تھے، آپ کے آنسو آپ کے رخسار اور داڑہی کو تر کررہے تھے اور آپ نے یوں بھینچا ہوا ہے ایسے دبایا ہوا تھا ۔۔۔ آپ نے روتی آواز میں کہا ، بہتے آنسوؤں کے ساتھ، کپکپاتے بدن کے ساتھ۔۔۔"۔ ، بلکہ یہ خود استنباطی تشریح ہے جو کہ درست نہیں۔
کلپ میں یہ بھی کہا گیا ہے: "ابھی تو وہ شہید نہیں ہوئے تو رویا جارہا ہے اب تو ان کی شہادت پہ روتے ہیں بھئی، ہم تو ان کی شہادت پہ روتے ہیں، اور یہ قیامت تک روتی رہے گی دنیا، یہ اللہ کا نظام ہے اس نے کربلا کے واقعہ کو یوں کردیا کہ جیسے ہر سال آج ہی ہوا ہے، آج ہی حسین شہید ہورہا ہے"۔
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ کا اس خبر کو سن کر ایک فطری رد عمل تھا جو کہ اس وقت کی صورت حال کے مطابق تھا، زور زور سے رونے کا دعوی بلا دلیل اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے، اسی طرح یہ کہنا کہ ہم شہید پہ روتے ہیں، یہ بھی ایک بے بنیاد سی بات ہے، تین دن کے بعد سوگ ہے ہی نہیں تو زور زور سے رونا اور ماتم کہاں سے آگیا، پھر اسلام کے دامن میں ہزاروں نہیں لاکھوں شہید ہیں، انبیاء، صدیقین، صحابہ وتابعین، سلف صالحین کی ایک ایسی تعداد ہے کہ اگر ایک لمحہ ایک شخصیت کے رونے کے لیے مختص کردیا جائے تو چوبیس گھنٹہ میں ایک لمحہ بھی خالی نہ بچے گا، یہ فطرت کے بھی خلاف ہے اور خدا وررسول کی تعلیمات کے بھی، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ اور کتنے شہیدوں کی شہادت پہ روتے ہیں، سید الشہدا حضرت حمزہ، شہید مظلوم شہید قرآن حضرت عثمان ، حضرت علی اور سینکڑوں شہید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کس کس کی شہادت پہ روتے ہیں؟ پھر اکیلے ایک حضرت حسین کی کیا تخصیص ہے؟ یقینا یہ رونا شہادت کی وجہ سے نہیں بلکہ رونے والے اپنے آباء واجدا کوفیوں کی بے وفائی کی وجہ سے شہادت حسین رضی اللہ کا سبب بننے پر خدا کی طر ف سے دنیا ہی میں سزا وار ہوئے ہیں اور اپنے اس جرم کے چھپانے کے لیے ہر سال رونے پیٹنے کا یہ ڈرامہ رچایا جاتا ہے جسے ہمارے کرم فرما اپنے اجتہاد کے زور پر سنت باور کروانا چاہتے ہیں جو کبھی نہیں ہوسکتا ۔
علامہ مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب :"قاتلان حسین کی خانہ تلاشی" میں پورے دلائل کے ساتھ کوفیوں اور ان کی آل واولادکے جرم اور ہر سال احساس جرم میں خود کو ماتم کے نام پر سزا دینے کو واضح کیا ہے۔ باذوق حضرات اس کتا ب کی طرف رجوع کر کے تفصیلات جان سکتے ہیں۔
ہم آخر میں بس اتنی گذارش ضرور کریں کہ اہل سنت کے مسلمات سے صرف نظر نہ کی جائے، جب بھی ایسی کوئی بات سامنے آئے تو عقیدت کو بالائے طاق رکھ کر مستند اہل علم وافتا سے رجوع کر کے اس کی حقیقت معلوم کریں۔
هذا وصلى الله على سيدنا ومولانا محمد وعلى آله وبارك وسلم.
ابو الخیر عارف محمود
7محرم الحرام 1441ھ
7ستمبر 2019م