بے مثال انسان، بے نظیر حکمراں ۔۔ حضرت عمر رض تعالیٰ کی زندگی کے چند گوشے

       اسلامی سال کا سب سے پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، جو اپنے اندر کئی دلدوز اور دلخراش داستاں پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہر و عیاں رکھتا ہے، جس کی وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل بھی ہے عامۃ الناس سب سے زیادہ جس واقعے کی وجہ سے اس مہینہ کی طرف  متوجہ ہوتے ہیں وہ اس مہینہ میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا میدان کربلا میں شہید ہونا ہے۔اس مہینہ میں یہ ایسی دل کو چاک اور آنکھوں کو خون رلانے والی داستاں ہے،کہ جب بھی یہ مہینہ آتا ہے توخود نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے اہل و عیال او رساتھیوں کا بے گور و کفن، پاکیزہ جسم، خیالات کے دبیز پردوں سے نکل کر ظاہری جوڑا پہن لیتے ہیں۔ اس واقعہ نے قیامت تک کے لئے انسانیت کا سر جھکا دیا۔ بلانے والے اپنے، اکسانے والے اپنے، فوج لے کر سامنا کرنے والے اپنے، پانی روک لینے اپنے، وعدہ خلافی کرنے والے اپنے، ہم اس جاں گسل حادثہ میں منافقین کی سازشوں کا بہانا بھی تو نہیں کر سکتے۔
         اس کے علاوہ اسی مہینہ میں عالم اسلام کی ایک معزز ہستی کو بھی اس کے ساتھیوں کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ جو ہستی پیدا ہوئی تو مکہ میں شور مچ گیا، پوچھنے والے نے پوچھا کیسا شور ہے؟ اسے بتایا گیا کہ خطاب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے، یہ اسی کی خوشی کا شور ہے۔جس نے جاہلیت کے تاریک عہد میں سانس لی، او ران ہی کے درمیان پلا بڑھا او رپروان چڑھا، جب جوان ہوا تو بازار عکاظ میں پہلوانی کرنے لگا، یہ وہی بازار عکاظ ہے جس میں اپنے فن کے ماہرین کے علاوہ کوئی دوسرا شامل نہ ہو سکتا تھا،اسی بازار کے پروردہ نابغہ زیبانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ بھی ہیں، جن کو فن خطابت اور شاعری میں عربوں کے درمیان ثقاہت کا درجہ حاصل ہے۔ جہالت کے اس دور میں چند پڑھے لکھے لوگوں میں اس نوجوان کا نام بھی شامل ہے، او راپنے ملک کا سفیر بھی ہے۔
  جب اسلام کی باز گشت اس کے کانوں تک پہنچی تو کفار مکہ کی طرح اسے بھی جوش آیا مگر اس کے باوجود انسانی شرافت، غیرت و حمیت، خیر و فلاح کا عنصر اس میں موجود تھا۔ لیلی بن حنتمہ کہتی ہیں، کہ جب ہم نے کفار کے ظلم و جور سے عاجز آکر حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا توانہوں نے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا تم لوگوں کے ظلم و جور نے ہی تو مجبور کیا ہے، فرمایا کہ صبحکم اللہ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔ حالانکہ یہی شخص اپنی باندی کو جو ایمان لا چکی تھی مارتے مارتے تھک جاتا تھا۔
        جب اسلام کی یہ آواز روز بروز بڑھنے لگی اور یہ اجنبی آواز لوگوں کے درمیان جانی پہچانی جانے لگی، اور اس صدائے باز گشت سے لوگ مانوس ہونے لگے، توحضرت عمرؓ غصہ سے آواز لگانے والے ہی کے قتل کے در پہ ہو جاتے ہیں، اور اس آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کرنے کے ارادے سے نکل پڑتے ہیں، راستہ میں معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے بہن اور بہنوئی بھی اسی آواز کے شیدائی اور آواز لگانے والے کے ہم نوا ہو چکے ہیں۔ اس خبر سے ان کا غصہ دو بالا ہو جاتا ہے اور اسی غصہ میں بہن او ربہنوئی کے گھر پہنچتے ہیں او ران کو زدو کوب کرنے لگتے ہیں، لیکن جب بہن کے جسم سے نکلنے والے خون کی طرف نظر پڑتی ہے تونفرت کی ضد رحمت امڈ آتی ہے، اور پوچھتے ہیں جو تم پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ، دکھایا گیا، یہ اسی کتاب ہدایت کی چند آیات تھیں، لرزتے ہاتھوں سے کتاب کھولی گئی اور نگاہ سبح للہ مافی السموات والارض وہو العزیز الحکیم پر پھری تو ایمان کی باد بہاری کے سرد و مست جھونکوں نے دل کی شمع کافوری کو اورتیز کر دیاگویا کہ انہیں کو مخاطب بنا کر کہا جارہا ہے آمنوا باللہ و رسولہ کہ اللہ او راس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ جب زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تمام اس غالب او رحکمت والے کی تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہیں، تو تجھے کس چیز نے اس سے روک رکھا ہے، اور پھر پکار اٹھتے ہیں۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ۔
        اس عظیم انسان کو کیا معلوم اللہم اعز الاسلام باحد ا لرجلین اما ابن ہشام او عمر بن خطاب یہ دعائے نبوی ان کے حق میں قبول ہو چکی ہے۔ پھر اللہ کے رسول کی مجلس میں پہنچتے ہیں، اور ان کے ایمان کی خبر سن کر تکبیر کی صدا مکہ کی گلیوں اور پہاڑوں میں گونج اٹھتی ہے، پھر یہ کہا جانے لگتا ہے کہ ہم کفار کی وجہ سے گھروں میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے، لیکن اس شخص کے ایمان لانے کے بعد ہم نے بیت اللہ میں عبادتیں شروع کر دیں، جس نے حق اور باطل کو واضح کرکے فاروق کا لقب اختیار کر لیاہے۔
          جس نے ہجرت فرمائی تو اس شان سے کہ مکہ سے باہر نکل کر فرمایا تم میں سے کون ہے جو اپنی بیوی کو بیو ہ اور اپنے بچوں کو یتیم کرنے کا خواہش مند ہے، آئے اور مجھے روکے، مکہ کے شیر دل بہادر آگے بڑھ کر اسے روک نہ سکے۔
         جو روز بروز اسلام کو تقویت پہنچانے میں مصروف ہو گیا ہو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان جنگ میں شانہ بشانہ کھڑا رہا ہو۔ جس کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کو قرآن مقدس نے اپنے اندر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ہو، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اپنا  ہوش کھو دیا ہو، اور یہ یاد ہی نہ رہا ہو کہ جو آیا ہے اسے خالق سے پھر ملاقات بھی کرنی ہے، جس نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ابھر نے والے فتنہ کو اپنی ایمانی فراست، دانائی،عقلمندی اور ہوشیاری سے اس طرح  فرو کرکے انہیں اپنا ہمنوا بنا لیا ہو کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ہی میں اپنے مصلی پر امامت کے لئے آگے بڑھا دیا تھا، تو جسے حضور نے اپنا قائم مقام اور اپنے دین کا امام بنا دیا ہوہم میں کون ہے جو اس کی دنیاوی امامت پر اعتراض و اعراض کرے؟ جسے خلیفہ اول نے اپنی زندگی کے ایام پورے ہونے پر یہ کہہ کر خلیفہ بنایا ہو کہ اے اللہ تیری زمین پر بسنے والے تیرے بندوں پر میں نے اس شخص کو ذمہ دار مقرر کیا ہے جو ان میں سب زیادہ اچھا تھا۔
        جس نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو رعایا کی خدمت، ان کے آرام و راحت کی فکر نے راتوں کی نیند چھین کر گلیوں گلیوں گشت کرنے پر مجبور کر دیا ہو، اور اس نے عمدہ مشروب اور کھانے سے ہاتھ روک لیا ہو کہ کیا معلوم اتنی وسیع سلطنت میں کوئی جاندار بھوکا ہو، اس خیال ہی سے قیامت کے دن کی ہولناکی اور خدائی باز پرس سے کپکپی طاری ہو جاتی ہو۔ جس نے اپنے عدل و انصاف سے اپنے ممالک محروسہ کو آفتاب سے زیادہ روشن اور چمکدار بنا دیا ہو۔ ایک واقعہ پڑھیئے اور سر دھنئے۔
        اسلامی حکومت کی جانب سے تجارتی محصول وصول کرنے کے لئے سرحدی علاقوں پر انتظام ہوا، تو فرات کے آبی راستے پر بھی چوکی قائم ہوئی، اس طرح کہ دریا میں ایک رسہ پھینک دیا جاتا تھااور کشتی آکر اس سے اٹک جاتی تھی اورمحصول وصول کرنے والے اندازہ کے موافق محصول وصول کر لیتے تھے، ایک عیسائی تاجر اسی زمانہ میں اپنا مال لے کر اسی فرات کے آبی راستے سے گزر رہا تھا، محصول کے لئے زیادہ ابن حدیرؓ مقرر تھے، انھوں نے محصول وصول کر لیا، اور اسے جانے دیا، چند دن کے بعد جب وہ تجارت سے واپس ہوا، تو پھر اس کی کشتی روک لی گئی، او راس سے محصول کا مطالبہ کیا جانے لگا، جس پر وہ کہتا رہا کہ میں نے محصول ایک بار ادا کر دیا ہے اب مجھ ہی سے دوبارہ محصول کیوں اور کیسے وصول کروگے، اس عیسائی سوداگر او رزیادؓ کے درمیان بات بڑھ گئی، تاجر نے سامان اپنے آدمیوں کے سپرد کیا، او رزیادؓ سے کہا کہ میں خود امیرالمومنینؓ کے پاس جاتا ہوں اور وہ تاجر مکہ (اس وقت حضرت عمر ؓ مکہ ہی میں تشریف فرما تھے) میں امیرالمومنین کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے حاضر ہوا کہ میں ایک عیسائی تاجر ہوں اور پورا واقعہ کہہ سنایا، امیرالمومنین اس کے جواب میں ”کفیت“ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں، اور دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، عیسائی تاجر اس ایک لفظ سے مطمئن نہ ہوا۔ اورخود اسی کا بیان ہے کہ میں مکہ سے مایوس یہ ارادہ کرکے لوٹ رہا تھا کہ زیادؓ کے مطالبہ کو قبول کر لوں گا، اور محصول ادا کرکے مال چھڑا لوں گا، لیکن جب میں فرات کی اس چوکی پر پہنچا تو اس خبر سے میں حیرت میں پڑ گیا کہ "کتاب عمر قد سبق الیہ" کہ زیاد ابن حدیرؓ کے پاس اس کے پہنچنے سے پہلے ہی فرمان آ چکا ہے۔ اس فرمان میں لکھا گیا تھاکہ جب تم نے ایک مرتبہ محصول وصول کر لیا ہے تو اب دوبارہ محصول لینے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔ عیسائی سوداگر کا بیان ہے کہ اس خبر نے مجھے بے چین کر دیا اور اسی وقت اس نے زیاد ؓ کو مخاطب کرکے اعلان کیا "انی اشہد اللہ انی بری من النصرانیۃ وانی علی دین الرجل الذی کتب الیک ہذا الکتاب"۔ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں عیسائی مذہب سے کنارہ کش ہوتا ہوں اور اب اس شخص کے دین پر ہوں جس نے تمہارے نام سے یہ خط لکھا ہے۔ یہ اس عظیم حکمراں اوروسیع رقبہ پر حکمرانی کرنے والے خلیفہ کی طاقت تھی جس نے دور بیٹھ کر ایک عیسائی کو نقصان سے بچا لیا اور اس کا نتیجہ جو ہونا چاہئے تھا وہ ظاہر ہوا۔  (نقوش گیلانی ص/ ۳۸)
       یہی خلیفہ ہے، جس نے بادلوں کو دیکھ کر اس سے اگنے والی فصل پر اپنا استحقاق نہیں جتایا لیکن ساڑھے بائس لاکھ مربع میل پر اگنے والی فصل اس کے بیت المال میں پہنچتی رہیں،جس نے انا ولا غیری کی صدا نہیں لگائی؛ لیکن اس کے رعب اور دبدبے سے سینکڑوں میل دور قیصر و کسری کو اپنی زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی، اس کے انگلی کی ایک حرکت نے بہادر سپاہیوں کے اندر ہی نہیں بلکہ دریائے نیل میں حرکت پیدا کر دی۔ یہی خلیفہ جب غلام کو سوار اور اس کی سواری کی نکیل پکڑے اور پیوندزدہ کپڑے زیب تن کئے ہوئے بیت المقدس پہنچتا ہے،ا ور کنیسۃ القمامہ میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، تو بطریق یعنی گرجے کے پادری سے کہتا ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ بتاؤ، گرجے میں کسی طرف اس نے اشارہ کرکے کہا کہ آپ یہاں نماز پڑھ سکتے ہیں، تو اس کی دور رس نگاہ نے اس سجدہ سے پیش آنے والے خدشات کو بھانپ لیا او رفرمایا کہ اگر آج میں نے یہاں نماز پڑھ لی تو کل خطرہ ہے کہ مسلمان اسی کو دلیل بنا کر کہ یہاں میرے خلیفہ نے نماز پڑھی تھی تمہارے گرجے پر دعوی نہ کر بیٹھیں، یہ کہہ کر گرجے سے باہر آکر اس نے نماز پڑھ لی۔( نقوش گیلانی)
         جو ایک بوڑھے فقیر یہودی کا ہاتھ پکڑ کر ناظم بیت المال کے پاس آتا ہو اور یہ کہتا ہو کہ یہ سراسر ظلم او رزیادتی ہے کہ جوانی میں ہم ان کی کمائی ہوئی دولت سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں ہم انہیں سوالی اورمجبور بنا کر چھوڑ دیں، اور اسی کے ساتھ اس جیسے تمام بوڑھوں کے وظیفے جاری کرنے کا حکم کرتا ہو۔  (نقوش گیلانی)
           علامہ شبلی نعمانی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الفاروق“ (ص /١٥٣) میں کچھ دلچسب واقعات بھی تحریر فرمائی ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں۔
        ایک دفعہ ایک بد و ان کے پاس آیا او ریہ اشعار پڑھے:

يا عمر الخير جُزيتَ الجنةْ

اكسُ بناتي وأمَّهُنَّهْ

وكن لنا من الزمان جِنَّة

أقسم بالله لتفعلَنَّهْ

        ’’اے خیر والے عمر! الله تجھے جنت کا بدلہ عطا کرے، میری لڑکیوں کو اور ان کی ماں کو کپڑے پہنا۔اور زمانے کے مصائب کے سامنے ہمارے لئے ڈھال بن ، خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہوگا‘‘۔
         حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں اگرتمہارا کہنا نہ مانوں تو کیا ہوگا،بدو نے کہا:

تكون عن حالي لتسئلنَّـه

يوم تكون الأعطيات هنَّـه

وموقف المسئول بينهنَّـه

إما إلى نار وإما إلى جنَّــة

    ’’تجھ سے قیامت میں میری نسبت سوال ہوگا، پھر ان تمام عطایا کو لایا جائے گا جو تونے نہیں دیا، اور تجھے ان کے درمیان کھڑا کیا جائے گا،  پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہوگا‘‘۔
          حضرت عمر ؓ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی، پھر غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے دے، اس وقت اس کے سوا کوئی چیز میرے پاس نہیں۔
          ایک رات کو گشت کر رہے تھے، ایک عورت بالاخانے پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی:

تطاول هذا الليل وازورّ جَانِبُه ** وأرّقَني ألا ضجيعَ ألاعبُه

          رات کالی ہے اورلمبی ہوتی جاتی ہے اور پہلو میں یار نہیں، جس سے خوش فعلی کروں۔
         اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا تھا اور وہ اس کے فراق میں یہ درد انگیز اشعار پڑھ رہی تھی، حضرت عمر کو سخت قلق ہوا اور کہا کہ میں نے زنان عرب پر بہت ظلم کیا، حضرت حفصہؓ کے پاس آئے اور پوچھا کہ عورت کتنے دن مرد کے بغیر رہ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا چار مہینہ، صبح ہوتے  ہر جگہ حکم بھیج دیا کہ کوئی سپاہی چار مہینہ سے زیادہ باہر نہ رہنے پائے۔
         بالآخر یہ عظیم خلیفہ جو بیواؤں کی خبر گیری کرتا، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پوری کرتا،  اینٹ کا تکیہ لگا کر مسجد کے صحن ہی میں سو جاتا، رعایا کے گھروں میں پانی پہنچاتا، جو قاصد کے پیچھے دوڑتا پھرتا، جو مقام ضجنان پر کھڑے ہو کر یہ کہتا ہے کہ ایک وہ دن تھا اگر اونٹوں کے چرانے کے بعد تھک کر آرام کرنے کی غرض سے بیٹھ جاتا، تو میرا باپ مجھے طعنہ دیتا ایک آج کا دن ہے سوائے میرے خالق کے میرے اوپر کوئی حکمراں نہیں۔ وہ عظیم خلیفہ ٢٦ / ذی الحجہ ٢٣ ہجری کو فانی دنیا سے باقی رہنے والی دنیا کی طرف کوچ کر گیا۔ یکم محرم کو مدفون ہوئے اور حضرت صہیب ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

 

محمد فہیم قاسمی

درس و تدریس
محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
درس و تدریس، جا
رہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ

کل مواد : 3
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025