کراچی کے علماء سے چند ملاقاتیں قسط نمبر 1
مولانا طلحہ رحمانی صاحب سے ملاقات
حضرت مولانا طلحہ رحمانی صاحب جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے بانی حضرت بنوری رحمہ الله کے نواسے اور جامعہ کے دوسرے مھتمم حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب کے صاحبزادے ہیں ۔
ان کے دادا جی حضرت کیمل پوری رحمہ اللہ ہیں جن کو حضرت تھانوی رحمہ الله کامل پوری فرماتے تھے۔
گویا بہت سی نسبتیں جمع ہیں اب مجھ کم علم کو تو ان نسبتوں کا علم نہ تھا میں نے ان کا ایک مضمون پڑھا جس میں حکیم عبقری صاحب کی کچھ تعریف وتوصیف تھی ۔میں ان دنوں منگھڑت روایات پر کام کررہا تھا اور حکیم صاحب ان دنوں روایات کے معاملے میں حد درجہ غیرمحتاط تھے ہر دوسری منگھڑت روایت کا ماخذ عبقری معلوم ہوتا تھا ۔تو یہ تعریف مجھ پر خاصی گراں گذری اور میں نے "مولانا طلحہ رحمانی صاحب کی خدمت میں چند گذارشات" کے عنوان سے ایک تحریر لکھ ڈالی۔ گو میں تنقید لکھتے ہوئے بھی بحمداللہ مخاطب کے ادب کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہوں پھر بھی تنقید تو بہرحال تنقید ہی ہوتی ہے ۔
بیرحال تحریر پھیلی تو حضرت کا مجھے فون آیا اور بہت ہی اچھے انداز میں اور شائستہ لہجے میں اپنی گذشتہ تحریر کا کچھ پس منظر بتایا ۔اور فرمانے لگے کہ آپ کی تحاریر کی بدولت آپ سے تو پرانی شناسائی ہے۔ مجھے اکابر علماء کرام کے ایک گروپ رابطۃ المشاھیر میں شامل کیااور فرمایا کراچی آنا ہو تو ضرور تشریف لائیے گا ۔مجھے کچھ ہی عرصہ بعد کراچی کا سفر درپیش تھا لہذا ملاقات کے لئے حاضر ہوا اس وقت تک حضرت وفاق المدارس سندھ کے ترجمان بھی بن چکے تھے اور میں ان کی خدمات وتعلقات سے کچھ مرعوب سا حاضر ہوا کہ پتا نہیں پہچانیں گے بھی یا نہیں ۔لیکن حضرت نے ایسی خوشی ومسرت کا اظہار کیا جیسے کوئی بہت قریبی عزیز آیا ہو ۔اندازہ ہوا کہ اکابر کے خاندانی اخلاق کا مظہر ہیں ۔
مولانا طلحہ رحمانی صاحب کا دیوان خانہ دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے قدیم زمانے کے کسی شاعر کے دیوان خانے میں آگئے ہوں لکڑی کے منقش پلنگ لکڑی کے ہی کام والے دروازے ،گاؤتکیے میں نے ازراہ مزاح کہا کہ حضرت بس حقے کی کمی ہے ورنہ مرزاغالب کا دیوان خانہ تیار ہے ۔
مولانا بہت خوش مزاج ہنس مکھ، جلد گھل مل جانے والے آدمی ثابت ہوئے ۔اکابر کے واقعات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا جو مولانا کی زبانی سننے کو ملا ۔دونوں ملاقاتوں میں بہت پرتکلف کھانا بھی کھلایا ۔پہلی ملاقات میں مجھے گردے کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے حضرت کی مہمان نوازی سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہوسکا تھا ۔اب دوبارہ ملاقات ہوئی تو میں نےگذشتہ کی بھی تلافی کردی ۔مولانا نے بھی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ان کے بڑے بھائی حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن صاحب بھی موجود تھے ان کے قیمتی نصائح سے بھی استفادہ ہوا ۔
یوگنڈا کے ایک مہمان بھی تشریف رکھتے تھے ان سے کچھ بات ہوئی اور مسلمانوں کی یوگنڈا میں آبادی پوچھی تو بتانے لگے کہ پہلے وہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی پھر وہاں کے ایک بڑے عالم نے مسلمانوں کو جمع کر کے فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی وثلاث۔۔۔الایۃ پر خطاب کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تمہاری طرف متوجہ ہے ۔مثنی سے اللہ تعالیٰ کا ابتداء کرنا بتلاتا ہے کہ اصل حکم دو شادیوں سے شروع ہوتا ہے اس سے کم تو عارض کی بناء پر ہے ۔
اس پر سب نے کم از کم دو نکاح شروع کئے اب وہاں مسلمانوں کی آبادی 40% فیصد ہے ۔
بہرحال حضرت مولانا طلحہ رحمانی صاحب کی اور بھی بہت سی شفقتیں مجھ پر رہیں جن کا تذکرہ اس مختصر تحریر میں نہیں آسکتا ۔اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ کریم رب اپنے شایان بدلہ عطاء فرمائے آمین
عبداللہ اسلم غفرلہ،
مقیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی ۔