برطانیہ میں دینی مدارس اور مشکلات
برطانیہ کے تمام حفظ اور درس نظامی کے مدراس میں باقاعدہ ٹھیک ٹھاک فیس وصول کی جاتی ہے جو تقریبا سالانہ دو تین ھزار پاؤنڈز کے قریب ہوتی ہے، اگر ڈھائ ھزار پاؤنڈز کا بھی حساب لگایا جائے تو ایک بچہ حفظ میں کم از کم تین سال لگاتا ہے اس حساب سے والدین ایک بچے کے حفظ کے ساڑے سات ھزار پاؤنڈز فیس ادا کرتے ہیں، یہی حساب اگر درس نظامی کا لگایا جائے جو یہاں برطانیہ میں آٹھ سال کے بجائے چھ سال کا نصاب ہے اس حساب سے چھ سال کی مکمل فیس پندرہ ھزار پاؤنڈز بنتی ہے، غالبا فیس ہی کی وجہ سے برطانیہ کے مدارس میں چھ سال کا نصاب مرتب کیا گیا ہے (جس کے نقصانات پھر کسی موقع پر پیش کرونگا)
اس سسٹم کی وجہ سے عام برطانوی مسلمان والدین اب تین بڑی پریشانیاں بیان کر رہے ہیں، پہلی یہ کہ ایک سے زائد بچوں یا بچیوں کو دینی مدراس میں بھیجنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، دوسری بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان مدراس سے فارغ ہونے والے نوجوان علماء کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اب انہیں امامت اور تدریس کے لیے جگہ نہیں ملتی اور اگر کسی مسجد یا مکتب میں جگہ مل بھی جائے تو تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ بہت سے قابل ترین نوجوان علماء فارغ ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی عام سے دنیاوی کام کر رہے ہیں اور تیسری پریشانی یہ ہے کہ ان مدراس میں عصری علوم کا معیار بھی بہت اعلی نہیں ہوتا عمومی طور پر دینی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور عصری تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا ایک نقصان بعد میں یہ ہوتا ہے کہ یہ طلبہ اعلی عصری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی ظرح دکانوں پر کام کرتے ہیں اور والدین کو یہ افسوس ہوتا ہے کہ بچے نے مدرسے میں چھ سال تعلیم حاصل کی پندرہ ھزار پاؤنڈز فیس ہم نے ادا کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچہ نہ دین کا رہا اور نہ دنیاوی کسی کام کا۔
میں گذشتہ سترہ سال سے برطانیہ کے عصری اور دینی درسگاہوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں اور تقریبا چار سال سٹیٹ سکول کا گورنر بھی رہا ہوں مزید یہ کے دینی مدارس کے فارغ نوجوان علماء اور ان کی کارکردگی بھی نوٹ کر رہا ہوں، آج سے چند سالوں قبل میرے بیٹے حسن نے حفظ قرآن مکمل کیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مزید کیا پڑھنا چاہتا ہے اس نے یونیورسٹی میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ میں دینی علوم پڑھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا، وہ گذشتہ دو سال سے یونیورسٹی میں انٹرنیشنل بزنس پڑھ رہا ہے اور شام کے وقت درس نظامی کی نحو صرف اور فقہ بھی ساتھ میں پڑھ رہا ہے، میں نے اسے یہ بات سمجھادی ہے کہ دنیاوی تعلیم دنیا کمانے کے لیے حاصل کرو مگر دینی تعلیم خالص اللہ کی رضا کے لیے اور اس کے دین کی اشاعت کے لیے حاصل کرنی چاہیئے۔
برطانیہ کے مکاتب اور مدراس کے منتظمین کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ نوجوان علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے اگر ایک استاد مدرسہ چھوڑ کر چلا بھی جائے تو پیچھے دس استاد سستے میں مل جائنگے، ان مدراس اور جامعات میں فیس تو بچوں سے ٹھیک ٹھاک وصول کی جاتی ہے لیکن ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں کوئ لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا ہے، مدراس اور جامعات کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرے کہ جو بچے امامت اور تدریس کی لائن میں نہیں جاسکتے وہ فارغ ہونے کے بعد کسی دکان پر کام کرنے یا ٹیکسی چلانے کے بجائے کسی اچھے پروفیشن کو اپنائے اور ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی خالص اللہ کی رضا کے لیے بلا معاوضہ انجام دیں۔