پیغمبر اسلام ﷺ کی حیاتِ طیبہ
محمد ﷺ ۵۷۰ء میں پیدا ہوئے ، ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہوچکا تھا ، ۶ سال تک اپنی والدہ اور ان کی وفات کے بعد نویں سال تک دادا کی پرورش میں رہے ، پھر آپ ﷺ کے چچا نے نہایت محبت کے ساتھ آپ کی پرورش کی ، اس یتیمی کی زندگی نے آپ کے اندر یتیموں اور کمزوروں کے بارے میں محبت اور رحم دلی کے بے پناہ جذبات پیدا کردیئے ، آپ کی سچائی اور امانت داری کا اتنا شہرہ تھا ، کہ لوگ آپ کو صادق ( سچا ) اور امین (امانت دار ) کہہ کر پکارتے تھے ، آپ کے اندر فطری طورپر بڑی حکمت و فراست بھی پائی جاتی تھی ، نبی بنائے جانے سے پہلے کعبۃ اللہ کی ٹوٹی ہوئی عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کے مرحلہ میں مختلف قبیلوں کے درمیان سخت اختلاف پیدا ہوگیا اور اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ایسی لڑائی چھڑ جائے گی کہ خون کی ندیاں بہنے لگیں گی ؛ لیکن سب لوگوں نے آپ کو حَکَم مان لیا اور آپ نے ایسا خوبصورت فیصلہ کیا کہ سارے لوگوں نے ہنسی خوشی قبول کرلیا ۔ جب آپ ﷺکی عمر ۴۰ ؍ سال کی ہوئی تو آپ ﷺپر اللہ کا کلام اُترنا شروع ہوا ، اس اچانک پیش آنے والے واقعہ سے آپ گھبراگئے ، آپ فوراً اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا ، اس وقت آپ کی بیوی نے — اور ظاہر ہے کہ بیوی سب سے زیادہ شوہر کے حال سے باخبر ہوتی ہے — کہا :خدا کی قسم ! اللہ ہرگز آپ کو رُسوا نہیں کرے گا ؛ کیوںکہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ، ناداروں کا خیال کرتے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور کسی اچھے کام کی وجہ سے انسان مصیبت میں پڑ جائے تو اس کی مدد کرتے ہیں ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳) پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان فرمائیں تو مکہ کے قدیم طریقے کے مطابق آپﷺ نے صفا کی پہاڑی سے آواز لگائی ، لوگ جمع ہوگئے ، آپ نے اپنی بات پیش کرنے سے پہلے لوگوں کے سامنے اپنی ذات کو پیش کیا ، آپ ﷺنے فرمایا کہ میں نے تمہارے درمیان ۴۰؍ سال گزارے ہیں ، تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟ تمام لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا : سچا ، پھر آپ ﷺنے دریافت کیا کہ تم نے مجھے امانت دار پایا یا خیانت کرنے والا ؟ تمام لوگوں کی زبان پر تھا : امانت دار ، آپ ﷺنے مزید پوچھا : اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک فوج کھڑی ہے ، جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم اس کا یقین کروگے ؟ لوگوں نے کہا : بظاہر ایسے حالات نہیں ہیں کہ کوئی گروہ ہم پر حملہ کرے ؛ لیکن ہم نے کبھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے یا بددیانتی کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؛ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ آپ کہیں اور ہم اس کا یقین نہ کریں ، اب آپ ﷺنے فرمایا : ’’ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں‘‘ — اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺاخلاق کے کس اعلیٰ معیار پر تھے ، کہ جن لوگوں کے درمیان آپ نے بچپن سے لے کر جوانی تک کا پورا وقت گذارا ، ان سے آپ کو اپنے بارے میں دریافت کرنے میں کوئی ڈر نہیں ہوا ؛ اسی لئے جن لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا ، وہ بھی اس بات کی ہمت نہیں کرسکے کہ آپ کے اخلاق و کردار پر انگلی اُٹھائیں ۔ محمد ﷺکی سیرت کا سب سے اہم پہلو رحم دلی اور امن و صلح اختیار کرنا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا ، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا ، (بخاری ، کتاب التوحید ، حدیث نمبر : ۷۳) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا : رحم کرنے والوں ہی پر خدائے مہربان بھی رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ، (ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۹۲۴) جو لوگ کمزور اور بے سہارا ہونے کی وجہ سے خصوصی مدد کے مستحق ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ آپ ﷺنے خصوصی طورپر اچھے سلوک کا حکم دیا ، آپ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص یتیم کی محبت کے ساتھ پرورش کرے ، وہ جنت میں میرے بہت قریب رہے گا ، آپ ﷺنے اپنی دو انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جیسے یہ دو انگلیاں ، ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۵۱۵۲ ، مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۲۸۲۰) آپ ﷺنے بوڑھوں کی توقیر اور بچوں کے ساتھ شفقت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو ایسا نہ کرے ، وہ ہمارا آدمی نہیں ، (ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۹۱۹) عورتوں کے ساتھ خاص طورپر اچھے سلوک کی تلقین کی ۔ ایک دفعہ آپ ﷺنے کمزوروں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کی اہمیت کو بتاتے ہوئے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے پوچھیں گے : میں بیمار تھا ، تم نے عیادت نہیں کی ، میں بھوکا تھا ، تم نے کھانا نہیں کھلایا ، میرے کپڑے نہیں تھے ، تم نے مجھے لباس نہیں پہنایا ، بندہ پوچھے گا : اے اللہ ! کیا آپ بیمار پڑ سکتے ہیں اور میں آپ کی عیادت کرسکتا ہوں ؟ کیا میں آپ کو کھانا کھلاسکتا ہوں ؟ کیا میں آپ کو کپڑے پہناسکتا ہوں ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تو فلاں بیمار کے پاس پہنچتا تو مجھے وہاں موجود پاتے ، اگر تو فلاں بھوکے کے پاس پہنچتا تو مجھے وہاں موجود پاتا ، اگر تو فلاں ننگے کے پاس جاتا تو مجھے وہاں موجود پاتا ۔ (مسلم ، عن ابی ہریرۃ، حدیث نمبر : ۲۵۶۹) آپ ﷺکی رحم دلی کا حال یہ تھا کہ مکہ میں ۱۳ ؍ سال آپ ﷺنے اور آپ پر ایمان لانے والوں نے نہایت تکلیف میں گزارے ، مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں ، بعضوں کو ریت پر گھسیٹا گیا ، بعضوں کو آگ کے انگارے پر لٹایا گیا ، بعض مردوں اورعورتوں کو قتل کردیا گیا ، خود آپ کے گھر کی دہلیز پر کانٹے ڈالے جاتے ، گھر کے اندر کچرا پھینک دیا جاتا ، گلے میں اونٹ کی اوجھ کا پھندا ڈال کر مارنے کی کوشش کی گئی ، قتل کا منصوبہ بنایا گیا ؛ لیکن آپ ﷺنے اس پورے عرصہ میں نہ کبھی ہاتھ اُٹھایا نہ اپنے ساتھیوں کو اس کی اجازت دی ، پھر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے ، مدینہ کے زیادہ تر لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کرلی اور آپ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ، آپ چاہتے تھے کہ اب یکسوئی کے ساتھ لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایاجائے ؛ لیکن اہل مکہ کو یہ بھی گوارہ نہیں ہوا ، انھوںنے مسلمانوں کی اس چھوٹی سی بستی پر اگلے ہی سال حملہ کردیا اور بدر کے میدان میں جو مدینہ سے ۸۰ میل پر واقع ہے ، جنگ کی نوبت آگئی ، اللہ کی ایسی مدد ہوئی کہ دشمنوں کے بڑے بڑے ستر سردار مارے گئے اور ستر قید ہوئے ، آپ نے قیدیوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا ، یہاں تک کہ رہا کرتے ہوئے انھیں نئے جوڑے پہناکر رُخصت کیا ، اگلے ہی سال دوبارہ مکہ والوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا اور یہ لڑائی بالکل مدینہ کی سرحد پر لڑی گئی ، بہت سے مسلمان شہید ہوئے ؛ لیکن اس حال میں بھی آپ حملہ کرنے والوں کے لئے دُعا ہی کرتے رہے ، دوسال کے بعد پھر اہل مکہ نے مختلف قبیلوں کو اپنا اتحادی بناکر مسلمانوں پر حملہ کیا ، یہ اتنی بڑی اور جنگی وسائل سے مالا مال فوج تھی کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی ، آپ ﷺنے ایسی جنگی حکمت عملی اختیار کی کہ بالآخر دشمنوں کو واپس ہوجانا پڑا ۔ یہ واقعہ مدینہ آنے کے پانچویں سال کا تھا ، اس تابرتوڑ حملہ کے باوجود اگلے سال آپ مسلمانوں کے ساتھ احرام کا لباس پہن کر مکہ کے لئے نکلے ، جو امن اور جذبہ عبادت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور عربوں کی روایت کے مطابق احرام باندھ کر آنے والے کسی شخص کو کعبہ کا طواف کرنے سے روکا نہیں جاتا تھا ؛ لیکن پھر بھی اہل مکہ نے اجازت نہیں دی اور بالآخر آپ نے لڑائی سے بچتے ہوئے اہل مکہ کی شرطوں پر صلح کرلی اور واپس ہوگئے ، اہل مکہ نے اس معاہدہ کا بھی لحاظ نہیں رکھا اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو — جو غیر مسلم ہی تھا — مکہ میں دوڑا دوڑا کر قتل کیا ، پھر بھی آپ ﷺ نے لڑائی سے بچنے کے لئے ان سے کہا کہ وہ ان کا خوں بہا ادا کردیں ، مگر انھوںنے اسے بھی قبول نہیں کیا اور کہا کہ ہمیں جنگ کرنی ہے ؛ چنانچہ جس قبیلہ پر ظلم کیا گیا تھا ، اس کے اصرار پر مجبور ہوکر مکہ سے ہجرت کے آٹھویں سال آپ اپنے دس ہزار ساتھیوں کو لے کر پھر مکہ روانہ ہوئے اور ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ جنگ کی نوبت نہ آئے ؛ چنانچہ اہل مکہ نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیا ، اس وقت وہ تمام دشمن آپ کے سامنے کھڑے تھے ، جنھوںنے آپ پر پتھر پھینکا تھا ، آپ ﷺکی بیٹی کو طلاق دلوائی تھی ، قتل کا منصوبہ بنایا تھا ، مسلمانوں کو ناقابل برداشت ایذاء پہنچائی تھی ، مکہ چھوڑ دینے کے باوجود مدینہ پر بار بار حملہ کیا تھا ؛ لیکن آپ نے نہ صرف یہ کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ؛ بلکہ ان کو ان کے جرائم کی یاد دلاکر شرمندہ بھی نہیں کیا ، آپ ﷺنے ان سے فرمایا : أنتم الطلقاء لا تثریب علیکم الیوم ۔(النسائی فی سنن الکبریٰ ، حدیث نمبر : ۱۸۲۷۶)آج تم سب آزاد ہو تم پر کوئی پکڑ نہیں ۔ امن و آشتی کو قائم رکھنے کے لئے آپ ﷺنے ہمیشہ اسی بات کی تعلیم دی کہ کوئی مسلمان دوسرے کے لئے تکلیف کا سبب نہ بنے ، آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر مسلمان کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :من سلم الناس من لسانہ ویدہ ۔ (الإحسان فی تقریب صحیح بن حبان ، حدیث نمبر : ۴۸۶۲)وہ شخص کہ جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں ۔ ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ سب سے اچھا مسلمان وہ ہے کہ جس کے شر سے لوگ امن میں رہیں ، زیادہ تر پڑوسیوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے ؛ اس لئے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :من کان یؤمن باللّٰه فلا یؤذی جارہ ۔ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر : ۵۱۸۵)جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو ، وہ پڑوسی کو نہ ستائے ۔ ایک اور موقع پر آپ ﷺنے فرمایا : جس کا اللہ پر ایمان ہو ، اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۶۰۱۹) غرض کہ آپ ﷺکی پوری زندگی کا خلاصہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا ، لوگوں کو امن و آشتی کی طرف بلانا ، شرم و حیا کی دعوت دینا اوراخلاق کی اصلاح کرنا تھا ۔آخرت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت کا یقین ہے ، یعنی اس بات کا یقین کہ ایک ایسا وقت آئے گا ، جب خدا کے حکم سے یہ کائنات ختم کردی جائے گی ، تمام انسان زندہ کئے جائیں گے ، انھوںنے دنیا میں جو اچھے کام کئے تھے ، ان کو اس کا بہترین انعام دیا جائے گا ، وہ جنت میں داخل کئے جائیں گے ، اور انسان نے جو گناہ کئے تھے ، انھیں اس کی سخت سزا ملے گی اور وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا یقین عقل و فطرت کے عین مطابق ہے ، دنیا میں انسان بہت سے اچھے کام کرتا ہے ؛ لیکن اس کو اس کی جزا نہیں ملتی ؛ بلکہ بعض دفعہ وہ دکھ بھری زندگی گزار کر دنیا سے چلاجاتا ہے ، اس کے برخلاف کچھ لوگ ظلم و زیادتی کرتے ہیں ؛ لیکن دنیا میں ان کو سزا نہیں مل پاتی ہے ؛ اس لئے عقل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ کوئی ایسی جگہ ہونی چاہئے ، جہاں نیکی کرنے والوں کو انعام اور گناہ اور زیادتی کرنے والوں کو سزاملے ، اسی کا نام آخرت ہے ، وہاں خاندان ، رنگ و نسل اور علاقۂ و زبان کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ انسان کے عمل اور کردار کی وجہ سے جزا اور سزا کا فیصلہ ہوگا ۔ آخرت کا یقین ایک انقلابی عقیدہ ہے ، اس کی وجہ سے انسان کی سوچ بدل جاتی ہے ، انسان اس وقت بھی نیکی کے کام کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، جب کوئی تعریف کرنے والا اور انعام دینے والا نہ ہو اور اس وقت بھی برائی اور ظلم سے باز رہتا ہے ، جب کوئی دیکھنے والی آنکھ اورٹوکنے والی زبان نہیں ہو ، مثال کے طورپر اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ شراب انسان کی صحت کے لئے بھی نقصاندہ ہے اور اخلاق کے لئے بھی ؛ لیکن امریکہ جیسے ملک میں تمام ترغیبی اور قانونی وسائل کے استعمال کے باوجود یہ بات ممکن نہ ہوسکی کہ لوگوں کو شراب سے روک دیا جائے ، خود ہمارے ملک میں کئی ریاستوں میں شراب بندی کی کوشش کی گئی اور اس کے لئے سخت سے سخت قوانین بنائے گئے ؛ لیکن پھر بھی مکمل طورپر اسے روکنا ممکن نہ ہوسکا ، عرب کے لوگ شراب کے رسیا تھے ، ان کی کوئی محفل شراب سے خالی نہیں ہوتی تھی ؛ لیکن پیغمبر اسلام ﷺنے پہلے لوگوں کے ذہن میں آخرت کا یقین پیدا کیا ، پھر جب شراب کے حرام ہونے کا اعلان ہوا تو جن کے ہونٹوں تک شراب پہنچ چکی تھی ، انھوںنے اس کو حلق تک نہیں پہنچایا ، شراب کے مٹکے توڑ دیئے اور مدینے کی گلیوں میں شراب بہنے لگی ۔ اسی طرح سودی کاروبار عربوں میں عام تھا، وہ اسے ایک تجارت سمجھتے تھے ؛ لیکن جب اسلام نے اس کو منع کیا ؛ کیوںکہ اس میں غریبوں کا استحصال ہے ، تو ایک لخت لوگوں نے اس حکم کو قبول کرلیا اور جو سود پہلے سے لوگوں کے ذمہ باقی تھا ، اس سے بھی باز آگئے — یہ اسی عقیدہ کا نتیجہ تھا ، یہ عقیدہ انسان کی فکر کو بدلتا ہے ، اس سے انسان میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ ہر کام کو مادی نفع و نقصان کی ترازو میں نہ تولا جائے ؛ بلکہ وہ بہت سے کاموں کو خدا کی خوشنودی اور خلق خدا کی بھلائی کے لئے انجام دے ۔انسان کے بارے میں ! انسان کے بارے میں اسلام نے دو بنیادی تصورات پیش کئے ہیں ، ایک یہ کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ پیدائشی طورپر ان میں کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا ہو ؛ چنانچہ قرآن مجید نے کہا ہے :یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَآءً ۔ (النساء : ۱)اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا ہے ، اسی سے ان کا جوڑا بنایا ہے اوران دونوں سے بہت سے مرد و عورت بنادیئے ہیں ۔ خود پیغمبر اسلام ﷺنے اپنی تمام تعلیمات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے فرمایا :إن ربکم واحد و إن أباکم واحد ۔ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۳۴۸۹)تمہارا خدا بھی ایک ہے اور تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو ۔ یعنی اللہ کی توحید اور انسانی وحدت — اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام ﷺنے ایک انقلابی تصور عطا فرمایا کہ جو باتیں اتفاقی طورپر پیش آتی ہیں ، جس میں اس کے اپنے ارادہ و عمل کا دخل نہیں ہوتا ، جیسے کسی خاص خاندان میں پیدا ہونا ، سفید فام یا سیاہ فام ہونا وغیرہ ، تو اس کی وجہ سے کسی شخص کو دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی ، انسان اپنے عمل و کردار کی وجہ سے بہتر ہوتا ہے ؛ چنانچہ آپ ﷺنے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا :لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ، ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود علی أحمر إلا بالتقوی ۔ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۳۴۸۹)کسی عربی کو غیر عربی پر اور غیر عرب کو عربی پر ، نیز کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر (نسل و رنگ کی وجہ سے) کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، ہاں ، تقویٰ سے فضیلت حاصل ہوتی ہے ۔ دوسرا بنیادی تصور ہے کہ تمام انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہیں ؛ چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے :وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ۔ ( بنی اسرائیل : ۷۰)ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے ۔ انسان کے تخلیقی ڈھانچے کے بارے میں فرمایا گیا :لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ (التین : ۴)ہم نے انسان کو بہترین قالب میں پیدا کیا ہے ۔ آپ ﷺکے سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا ، آپ ﷺاس کے احترام میں کھڑے ہوگئے ، (مسلم ، کتاب الجنائز ، حدیث نمبر : ۹۶۱) عورتیں اپنے بالوں کو بڑا ظاہر کرنے کے لئے اپنے بال کے ساتھ دوسروں کے بال ملایا کرتی تھیں ، رسول اللہ ﷺ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ؛ ( ترمذی ، کتاب اللباس ، حدیث نمبر : ۱۷۵۹) کیوںکہ انسان کے کسی جزء کو دوسرا انسان اپنے لئے استعمال کرے ، یہ انسان کی عظمت و حرمت کے مغائر ہے ۔غیر مسلم بھائیوں کے متعلق قرآن مجید نے جو اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ‘‘ اس سے انسانی اُخوت کا رشتہ واضح ہوتا ہے ، جیسے ایک رشتہ خاندانی اُخوت و بھائی چارے کا ہے ، اسی طرح بھائی چارے کا ایک وسیع تر رشتہ وہ ہے ، جو پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پروتا ہے ؛ اس لئے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، وہ بحیثیت انسان بھائی بھائی ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے :لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ١ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (الممتحنۃ: ۸)جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے اور نہ انھوںنے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے ، اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انصاف برتنے سے نہیں روکتے ، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔ یہ آیت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ جو غیر مسلم مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہئے ، مسلمانوں کے بعض غیر مسلم رشتہ دار مسلمان ہونے کو تیار نہیں تھے ، مسلمان رشتہ دار پہلے سے ان کی کفالت کیا کرتے تھے ، انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کی بنیاد پر ان کی مالی مدد کرنا چھوڑ دیا ، قرآن مجید نے اس بات سے منع کیا کہ وہ کسی رشتہ دار کے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چھوڑ دیں ، اس سلسلہ یہ آیت نازل ہوئی :لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔(البقرۃ : ۲۷۲)ان لوگوں کی ہدایت آپ کے ذمہ نہیں ، اللہ جسے چاہتے ہیں ،ہدایت دیتے ہیں ، اور تم جو کچھ مال خرچ کرتے ہو ، وہ اپنے ہی لئے ، اور خرچ نہیں کرتے ہو مگر اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں ، اور جو بھی خرچ کروگے تم کو پورا پورا دیا جائے گا ، (یعنی اس کا پورا اجر ملے گا ) اور تم پر ظلم نہیں ہوگا ۔ آپ ﷺنے خود اپنے عمل سے اس حسن سلوک کی مثال پیش فرمائی ، مکہ کے لوگوں نے آپ ﷺپر اور آپ کے ساتھیوں پر کتنے مظالم ڈھائے ؛ لیکن جب مکہ میں قحط پڑا تو رسول اللہ ﷺنے ان کے لئے ریلیف جمع کی اور پانچ سو دینار ان کی مدد کے لئے بھیجے ، (السیر الکبیر : ۱؍ ۹۶) بیس دینار ساڑھے ستاسی گرام سونا ہوتا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بڑی رقم تھی ؛ حالاںکہ مسلمان خود اس وقت فقر و فاقہ سے گذر رہے تھے ۔ آپ ﷺنے غیر مسلم بھائیوں کے بارے میں ایک اُصولی بات فرمائی کہ جیسے ہم اپنے خون کو قابل احترام سمجھتے ہیں ، اسی طرح ہمیں ان کی زندگی کا بھی احترام کرنا چاہئے ، اورجیسے ہمارے مال کی حرمت ہے ، اسی طرح ان کا مال بھی قابل احترام ہے :دماءھم کدمائنا و أموالھم کأموالنا ۔ (نصب الرایہ : ۴؍۳۶۹) قرآن نے کسی بھی نفس انسانی کے قتل ناحق کو حرام قرار دیا ہے ، (بنی اسرائیل : ۳۳)اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا ہے ، (المائدۃ : ۳۲) جو غیر مسلم بھائی حملہ آور نہ ہو ؛ بلکہ پُرامن طورپر مسلمانوں کے ساتھ رہتا ہو ، پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اس کو قتل کرے گا ، وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا ، (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۰) یا جو اُن کے مال میں سے لے لے گا ، یا ان کے ساتھ حق تلفی کرے گا ، قیامت کے دن میں اس کی طرف سے فریق بن کر کھڑا ہوں گا ، (ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۳۰۵۳) اسی طرح اسلام کی نظر میں کوئی مسلمان بہن ہو یاغیر مسلم بہن ، دونوں کی عزت و آبرو برابر ہے ۔ اسلام نے غیر مسلم بھائیوں کے مذہبی جذبات کا بھی لحاظ رکھنے کا حکم دیا اور کہا کہ وہ جن دیویوں دیوتاؤں کو پوجتے ہیں تم ان کو برا بھلا نہ کہو ، (الانعام : ۱۰۸) قرآن نے کسی کی عبادت گاہ کو منہدم کرنے کی مذمت کی ہے ، چاہے وہ مسلمانوں کی ہو یا کسی غیر مسلم گروہ کی ، (الحج : ۴۰) قرآن نے ہدایت دی کہ جہاں معاملہ انصاف کا ہوتو اس میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے ، اگر کوئی گروہ تمہارا مخالف ہو ، تمہاری نظر میں ان کا طور و طریق اچھا نہ ہو ، یا ان کی سوچ غلط ہو ، پھر بھی تمہارے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ تم ان کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کرو ۔ (المائدۃ : ۸)