تجارت انسانی عزت و وقار کی !
دنیا میں کتنی ہی چیزوں کی تجارت ہوا کرتی ہے، معمولی سے معمولی اور قیمتی سے قیمتی ہیرے موتی سے لے کر ریت اور مٹی کے ڈھیر ؛ بلکہ غلاظتوں تک کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے، کسی زمانہ میں انسان کی بھی تجارت ہوا کرتی تھی، اب بھی سنا ہے کہ افریقہ کے بعض غریب ممالک میں انسان خریدے اور بیچے جاتے ہیں، گاہے گاہے ہندوستان میں بھی ایسی خبریں منظر عام پر آجاتی ہیں، کہ فلاں مقام پر غریب اور فاقہ کش ماں باپ نے اپنے جگر کے ٹکروں کو کچھ پیسوں کی عوض فروخت کر دیا، یقینا خون جگر پلا کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے والے ماں باپ ایسے موقعوں پر خون کے آنسو روتے ، اور اشک ِحسرت ان بچوں کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے رخصت کرتے ہوں گے ۔
لیکن انسانی تجارت کی ایک اور صورت ہے، جو اس وقت سماج کے مہذب لوگوں کے درمیان رائج ہے، جس میں انسان اپنے لڑکوں کو آپ فروخت کرتا ہے اور فروخت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں حسرت و افسوس کے آنسو نہیں ؛ بلکہ خوشی کے آنسو ہوتے ہیں، دل حسرت و یاس کی تپش سے اُبلتا نہیں ؛ بلکہ حسین آرزؤں کے تصور سے اچھلتا اور کودتا ہے، یہ عجب منڈی ہے جہاں پڑھے لکھے ، اہل دانش ، اصحابِ ثروت ، اعلیٰ عہدوں پر فائز خوشی خوشی اپنے لڑکوں کا سودا لے کر آتے ہیں اور اس کی تعلیم ، معاشی امکانات ، خاندانی پس منظر ، یہاں تک کہ شکل و صورت اور آباء و اجداد کی شرافت کی دہائی دے کر ڈاک لگاتے اور زیادہ سے زیادہ قیمت کے خواستگار ہوتے ہیں ، انھیں اپنے لڑکوں کو فروخت کرنے اور ان کی جوانی کی قیمت لگانے میں نہ کوئی شرم ہوتی ہے، نہ کوئی عار۔
آپ سوچیں گے یہ کون سی منڈی ہے؟ کیا کوئی ماں باپ اپنے لڑکوں کو بیچ بھی سکتا ہے ، کہیں انسانوں کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے، کیا عہد غلامی پھر واپس آگیا ہے ؟؟
لیکن آپ کو اس پر تعجب نہ ہونا چاہئے، ہمارا پورا سماج انسانی تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے، ہر گھر میں ایک دوکان ہے، اور ہر خاندان میں کچھ تاجر اور کچھ گاہک ہیں — کیا لڑکی والوں سے گھوڑے، جوڑے کے نام پر رقم وصول کرنا، ان سے جہیز کا مطالبہ کرنا، اپنے مدعووین کو ان کے سر تھوپ دینا اور ان سے منھ مانگا کھانا طلب کرنا، تجارت اور اپنے لڑکے کی قیمت لگانا نہیں ہے ؟ قیمت روپیوں میں بھی ادا کی جاتی ہے ، سامان و اسباب کے ذریعہ بھی اور ہوٹلوں میں شکم پروری کے ذریعہ بھی، یہ سب قیمت کے مختلف عنوان اور الگ الگ انداز ہیں ، لڑکا اور اس کے والدین ان تمام طریقوں سے لڑکے کی قیمت وصول کرتے ہیں اور اس کی جوانی کا منھ مانگا دام پاتے ہیں ، اس کے تجارت ہونے میں کیا شبہ ہے؟!
اللہ تعالیٰ نے ایک ہی ماںباپ سے مرد و عورت دونوں کو پیدا کیا ہے، جیسے مردوں کے حقوق ہیں، ویسے ہی عورتوں کے ؛ بلکہ قرآن نے کہا ہے کہ اُصولی طور پر مرد و عورت دونوں حقوق میں برابر ہیں: ’’ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ ‘‘(البقرۃ:۲۲۸) — البتہ صلاحیتوں کے تفاوت کے اعتبار سے تقسیم کار ہے، اور بعض ذمہ داریوں میں مرد و عورت کے درمیان فرق رکھا گیا ہے، مرد کو سربراہِ خاندان قرار دیا گیا: ’’ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ‘‘ (النسائ: ۳۴)— اور مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ فوقیت دی گئی ؛ لیکن یہ فوقیت محض مرد ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ؛ بلکہ مردانہ فرائض اور بحیثیت سربراہ خاندان خرچ کرنے کی وجہ سے ہے : ’’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ‘‘۔(البقرۃ : ۲۲۸)
غرض مرد کو جو فضیلت و برتری دی گئی ہے وہ اس وجہ سے کہ وہی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتا ہے ؛ اسی لئے کسب ِمعاش کی ذمہ داری مرد سے متعلق کی گئی : ’’ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ‘‘ (الجمعۃ:۱۰) اور اُمور خانہ داری کو عورتوں سے متعلق کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ گھر میں رہا کریں : ’’ وَقَرن فِی بُیُوْتِکھن‘‘ (الاحزاب:۳۳)کہ ان کی عزت شمع خانہ بن کر رہنے میں ہے ، شمع محفل بننے میں ، اسی لئے ساری مالی ذمہ داریاں مردوں ہی سے متعلق رکھی گئی ہیں، مہر اسے ادا کرنا ہے، دعوت ولیمہ اس کی ذمہ داری ہے، پھر نکاح کے بابت لڑکی کی تمام ضروریات اس سے متعلق ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی ان مالی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اور الٹے لڑکی اور اس کے اولیاء سے اپنی قیمت وصول کرتا ہے، تو یہ نہایت ہی شرمناک بات ہے، جوانی کی قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی تھی اور اعلیٰ نسل کے جانور حاصل کئے جاتے تھے، کیا شادی کے موقع سے لڑکے والوں کی جانب سے مطالبہ اس حیوانی کردار کی پیروی نہیں ہے ؟ اور جو لوگ پیسے لے کر شادی کرتے ہیں، کیا وہ مردانہ تعظیم و وقار اور بحیثیت شوہر تکریم و توقیر کے مستحق ہیں؟ جب کہ قرآن نے مردوں کو بلند رتبہ اس بنیاد پر قرار دیا تھا کہ وہ خرچ کرتے ہیں، اور آپ ا نے فرمایا کہ اونچا (یعنی دینے والا ہاتھ نچلے ) یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے : ’’ الید العلیا خیر من الیدالسفلی‘‘(بخاری ، حدیث نمبر :۱۴۲۷، عن ابی ہریرہؓ) تو جو شوہر اپنا ہاتھ نیچے رکھتا ہو اور اپنی بیوی اور اس کے اولیاء کو اپنا ہاتھ اونچا رکھنے پر مجبور کرتا ہو ، وہ کیسے اپنی بیوی سے بلند رتبہ ہو سکتا ہے ، اگر دولت مند خود فقیر کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگے اور بادشاہ درویش کے سامنے اپنی کشکول رکھ دے ، تو وہ فقیر و درویش بلند مرتبہ ہوگا ، یا بادشاہ و غنی ؟
یہ ایک چبھتا ہوا ناگوار خاطر ؛ لیکن برحقیقت سوال ہے اور جن لوگوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی قیمت لگارکھی ہے ، انھیں کبھی تنہائی میں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے، حقیقتیں تلخ ہوتی ہیں ؛ لیکن دانا وہی ہوتا ہے جو حقیقت کے تلخ گھونٹ کو اپنے حلق سے اُتار لے ۔
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکیوں کی شادی کے وقت تو شریعت کی دہائی دیتے ہیں؛ لیکن لڑکوں کی شادی کے وقت شریعت کو بھول جاتے ہیں؛ بلکہ شریعت کا ذکر بھی گراں خاطر ہوتا ہے، گویا شریعت پر عمل کرنا مقصود نہیں ہے، اصل مقصود نفس کے عفریت کا پیٹ بھرنا ہے، اس لئے کبھی پیسے بٹورنے کے غرض سے شریعت کے نام سے گریز کیا جاتا ہے، اور کبھی پیسہ بچانے کے لئے شریعت کا نام استعمال کیا جاتا ہے ، مقصود دونوں صورتوں میں اپنے مالی مفادات کو حاصل کرنا ہے ، ابھی چند دنوں پہلے حیدرآباد میں خواتین کی تنظیم تحفظ شریعت کمیٹی نے اپنے آٹھ شعبہ’’ و ومن ہیلپ لائن ‘‘ کے تحت نفیس گارڈن میں ایک پروگرام رکھا تھا، جس میں شریعت اور سنت کے مطابق نکاح کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں اور ان کے اولیاء کو جو رشتہ کے خواہشمند ہوں، دعوت دی گئی تھی، تاکہ ایسے لوگ اس عزم کے ساتھ باہم رشتہ طئے کریں کہ وہ مسنون طریقہ پر بغیر لین دین کے تقریب نکاح کو انجام دیںگے، اس کیمپ کے افتتاح کی ذمہ داری اس حقیر پر پر رکھی گئی تھی ، میں جب پہنچا تو اس وقت تک دو سو سے کچھ اوپر رشتہ کے خواہشمند حضرات اپنے نام رجسٹرڈ کرا چکے تھے ؛ لیکن ان میں بیس رشتے لڑکے والوں کی طرف سے تھے، اور باقی سب لڑکی والوں کی طرف سے ، گویا نوے فیصد رشتوں کی پیشکش لڑکی والوں کی طرف سے تھی اور دس فیصد لڑکے والوں کی طرف سے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سماج کے مزاج میں کتنا بگاڑ آچکا ہے، اور شریعت اور دین کو کس قدر پس پشت ڈالدیا جاتا ہے ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو مطالبات کئے جاتے ہیں ، وہ رشوت کے حکم میں ہیں ، رشوت کا لینا تو حرام ہے ہی ، شدید ضرورت کے بغیر رشوت کا دینا بھی حرام ہے ، رسول اللہ انے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجی ہے ، ( سنن ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۳۳۷ ، سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۳۵۸۰ ، عن عبد اﷲ بن عمروؓ ) آپ انے یہ بھی فرمایا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں ، (مسند البزار ، حدیث نمبر : ۱۰۳۷ ، عن عبد الرحمنؓ ، معجم طبرانی ، حدیث نمبر : ۱۰۹۰۲ ، عن عبد اﷲ بن عمروؓ)اس طرح نکاح کے موقع سے مطالبہ کرنے والے تو اپنے لئے جہنم خرید تے ہی ہیں، اور اللہ کی لعنت کا طوق اپنے گلے میںلٹکاتے ہی ہیں، جو لوگ دینے پر مجبور نہ ہوں وہ بھی اپنے لئے جہنم اور خدا کی لعنت خرید رہے ہیں ، مجھے تو سب سے زیادہ افسوس لڑکے کے بوڑھے والدین اور دوسرے اعزہ کی کم بختی پر ہوتا ہے ، کہ زیادہ تر وہی مطالبات کی فہرست بتاتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں ؛ حالاںکہ جب یہ سامان گھر میں آتا ہے ، یا رقم لڑکوں کے ہاتھوں ملتی ہے، تو خود ان کو بہت کم اس سے استفادہ کا موقع بہم پہنچتا ہے ، زیادہ تر گھر میں آنے والی بہو اور اس کا شوہر ہی نفع اندوز ہوتا ہے ؛ لیکن ناحق قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے والدین اپنے عمر کے آخری لمحات میں جس کو توبۂ و استغفار کے لئے وقف ہونا چاہئے تھا ، دوزخ اور لعنت خداوندی بصد مسرت اور بہ ہزار شوق خرید کرتے ہیں ، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی کم نصیبی ؛ بلکہ بد نصیبی ہو سکتی ہے ؟
اگر کسی شخص نے رشوت لے لیا ہو تو اب اس کی تلافی کی یہی صورت ہے کہ وہ اسے واپس کردے، اس لئے جن لوگوں نے مطالبہ کے ذریعہ کوئی رقم یا سامان حاصل کیا ہے ، تو اس کا یا اس کی قیمت کا واپس کر دینا شرعاً واجب ہے، مانگنا چاہے صراحتاً ہو یا اشارۃ ، براہِ راست ہو یا بالواسطہ سب کا ایک ہی حکم ہے ، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مطالبہ تو نہیں کیا اور سامان کی فہرست توپیش نہیں کی ؛ لیکن کسی دولت مند گھرانہ میں یہ سمجھ کر رشتہ طئے کیا کہ اگر دو نہیں تو ایک لاکھ تو کہیں نہیں جائیں گے ، اتنا تو وہ بغیر مانگے ہی دے دے گا، یہ بھی رشوت کے ہی حکم میں ہے ؛ کیوں کہ فقہاء نے ایک اُصول مقرر کیا ہے کہ جو چیز بطورِ شرط کے طے نہ کی جائے ؛ لیکن عرف ورواج کے تحت لی جائے، تو وہ بھی شرط لگانے کے ہی درجہ میں ہوگا ’’ المعروف عرفا کالمشروط شرعًا‘‘ ہاں ! اگر انکار و نفی کے باوجود لڑکی والے اپنی طرف سے دیدیں تو یہ یقینا اس دائرہ میں نہیں آئے گا ۔
اگر نکاح کی تقریب مسجدوں، دینی جلسوں اور مذہبی اجتماعات میں رکھی جائے، علماء اوراہل دین سے نکاح کے خطبات پڑھوائے جائیں ، مجلس نکاح میں ایمان افروز اور روح پرور بیان رکھے جائیں ؛ لیکن اندرونی طور پر سودہ بازی بھی کی جائے اور چھپے ہاتھوں لین دین کا معاملہ بھی طے کیاجائے ، تو یہ تو نفاق اور گناہ پر ظاہری نیکی کا دبیز غلاف چڑھانا اور دین کے پردہ میں بے دینی کو چھپانا ہے ، جو یقینا کھلی ہوئی بے دینی سے بھی زیادہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے ۔
لین دین کا ایک نفسیاتی اثر یہ پڑتا ہے کہ اگر کوئی لڑکی مسنون طریقۂ عقد کے ذریعہ نکاح میں لائی جائے، تو لڑکی اور اس کے والدین کے اندر احسان مندی اور احسان شناسی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، وہ اپنے سسرال کو اپنا محسن تصور کرتی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک ماں باپ سے جدا ہو کر دوسرے ماں باپ کے گھر پہنچی ہے، اس میں اپنے شوہر ، ساس ، سسر اورسسرال کے بزرگوںکے تئیں محبت اور خدمت کے جذبات ہوتے ہیں اور جب لڑکے اوراس کے والدین لڑکی والوں کا خون جگر اور آخری قطرۂ لہو نچوڑ کر اسے اپنے گھر لاتے ہیں ، اس بہو میں احسان مندی اور جاں نثاری کے بجائے نفرت اور خود غرضی کے جذبات پنہاں ہوتے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے ، اگر کوئی شخص آپ کو پانچ روپیہ ہی کی کوئی چیز تحفتاً پیش کرے ، تو آپ یقینا اس کے شکر گذار ہوں گے، اور آپ کے دل میں قدر دانی کا جذبہ پیدا ہوگا اور اگر آپ کسی سے پانچ روپئے میںکوئی چیز خرید کریں تو آپ اسے محسن تصور کرنے کے بجائے اپنے آپ کو محسن سمجھیں گے ، اس لئے کہ تاجر خریدار کا احسان مند ہوتا ہے نہ کہ خریدار تاجر کا ، اس لئے جس لڑکی اور اس کے سرپرست نے دلہا کی قیمت ادا کی ہے ، آخر وہ اس مرد یامرد کے اہل خانہ کے احسان مند کیوں کر ہوں ، جس کی قیمت ان لوگوں نے اپنا خون جگر بیچ کر ادا کی ہو ؛ اسی لئے آج کل یہ شکایت عام ہے کہ جب بہو گھر میںآتی ہے وہ خدمت واطاعت کے جذبہ سے خالی و عاری ہوتی ہے اور گھر سے متعلق فرائض اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہ ۔